نظم ”ذکر و فکر“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
پروفیسر یوسف سلیم چشتی شرح میں فرماتے ہیں کہ ”نظم ذکر و فکر مختلف سی نظم ہے جس میں علامہ اقبال نے انسانی کمالات کے مختلف پہلو ذکر و فکر کے نقطۂ نگاہ سے پیش کیے ہیں۔“
نظم ”ذکر و فکر“ کی تشریح
یہ ہیں سب ایک ہی سالِک کی جُستجو کے مقام
وہ جس کی شان میں آیا ہے ’عَلَّم الاسما‘

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| سالِک | راستہ چلنے والا، یعنی اللہ تک رسائی حاصل کرنے والا |
| جستجو | تلاش |
| مقام | پڑاؤ ڈالنے کی جگہ، ٹھہرنے کی جگہ |
| علم الاسما | اشارہ ہے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 31 کی طرف |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ذکر اور فکر دونوں ایک ہی مسافر (سالِک) کی تلاش کے مختلف مقامات ہیں۔ یہ سالک کون ہے؟ انسان – وہ مخلوق جس کی شان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا: ”عَلَّمَ الأَسْمَاءَ“ (اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیے)۔ بعض نے ”اسماء“ کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ آدم کو اشیاء کے حقائق و خواص کا علم دے دِیا گیا۔ بہرحال انسان کی معنوی تکمیل کا وہ عظیم الشان واقعہ ہے جس کی وجہ سے وہ اشرف المخلوقات قرار پایا۔ خود اقبالؔ پیامِ مشرق میں فرماتے ہیں:-
علم اشیا “علم الاسماستی”
ہم عصا و ھم یدِ بیضاستی
علمِ اشیاء ہی علمِ اسماء کی تفسیر ہے؛
یہی عصا ہے اور یہی یدِ بیضا۔
مقامِ ذکر، کمالاتِ رومیؔ و عطّارؔ
مقامِ فکر، مقالاتِ بوعلیؔ سِینا

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| ذکر | اللہ تعالی کا ذکر کرنا، اللہ تعالی کو یاد کرنا، یاد دَہانی |
| کمالات | کمال کی جمع۔ کسی ہنر یا فن میں ماہر ہونا |
| فکر | فلسفیانہ سوچ بچار |
| مقالات | مقالہ کی جمع۔ تحریریں، مراد حکمت اور فلسفے کی باتیں |
تشریح:
علامہ اقبال اس شعر میں ذکر اور فکر کے دو الگ مقامات کی عملی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مقامِ ذکر یعنی روحانی مشاہدے اور قلبی کیفیات کی منزل – اس کا کامل نمونہ مولانا رومی اور شیخ فریدالدین عطار کے کمالات میں نظر آتا ہے۔ یہ دونوں بزرگ ذکرِ الٰہی اور روحانی ریاضت میں ایسے درجۂ کمال تک پہنچے کہ انہوں نے مشاہدۂ حق کا مقام حاصل کر لیا۔ دوسری طرف مقامِ فکر ہے، یعنی عقلی غور و فکر اور فلسفیانہ تحقیق کا راستہ۔ اس کی اعلیٰ مثال بو علی سینا کے مقالات اور فلسفیانہ تصانیف ہیں جو فکری بلندی کے شاہکار ہیں۔
اقبالؔ یہاں یہ واضح کر رہے ہیں کہ جو شخص ذکر کی راہ اختیار کرتا ہے، وہ رومی اور عطار جیسا روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے اور جو فکر و تدبر کی طرف متوجہ ہوتا ہے، وہ بو علی سینا جیسا عالی مرتبہ حکیم بن سکتا ہے۔ البتہ اقبالؔ کا اشارہ یہ بھی ہے کہ اہلِ فکر کو حقیقت تک تو رسائی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن وہ دیدار اور مشاہدے سے محروم رہتے ہیں – عقل حقیقت کو سمجھ سکتی ہے لیکن دِل حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔
مقامِ فکر ہے پیمائشِ زمان و مکاں
مقامِ ذکر ہے سُبحانَ ربیّ الاعلیٰ

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| پیمائش | ناپ |
| زمان و مکاں | زمان: زمانہ، مکان: جگہ، زمان و مکان: time and space |
| سبحان ربی الاعلی | پاک ہے میرا پروردِگار جو بلند ترہے |
تشریح:
اقبالؔ اس شعر میں فکر اور ذکر کی حدود اور کمالات واضح کرتے ہیں۔ فکر کا مقام زمان و مکان کی پیمائش ہے، یعنی اہلِ فکر اس مادی جہان اور عالمِ شش جہات کے متعلق غور و خوض کرتے رہتے ہیں، وقت اور فضا کی حقیقت تلاش کرتے ہیں، اور فلسفیانہ مسائل حل کرتے ہیں لیکن اُن کی رسائی اِس مادی دنیا (material world) کی حدود تک محدود رہتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کائنات کی پیمائش کر سکتے ہیں، لیکن اس جہان کے پیچھے یا آگے کیا ہے، ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ کا راز اُن پر نہیں کھلتا۔

دوسری طرف ذکر کا مقام ”سبحان ربی الاعلیٰ“ ہے یعنی جب انسان اپنی خودی کو خدا سے روشناس کرتا ہے اور ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوتا ہے، تو وہ اُس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اُس کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ میرا رب سب سے بلند اور تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے۔ اہلِ ذکر صفات کے بت کدے کو توڑتے ہوئے دیدارِ ذات کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں اور اس جہانِ مادہ کے پسِ پردہ جو حقیقت ہے، اسے پا لیتے ہیں۔ گویا فکر مادیات کی تلاش میں محو رہنا ہے جبکہ ذکر صرف اس ذاتِ پاک سے خود کو وابستہ کرنا اور باقی ہر شے کو پروردگار کے تابع کر دینا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ذکر اور فکر انسان کی دو بنیادی قوتوں کا نام ہے، اور اسلام ایسا دین ہے جو ان دونوں کا جامع ہے۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی






