Skip to content
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

تعارف

1910ء میں لکھی گئی ”ترانۂ مِلّی“، نظم ”ترانۂ ہندی“ کی تردید میں لکھی گئی۔ اِن دو نظموں کا ہر ہر شعر ایک دوسرے کے مقابل کہا گیا ہے اور ہر اُس نظریے کی تردید کرتا ہے جس پر علامہ اقبال پہلے یقین رکھتے تھے۔

اس شرح میں علامہ اقبال کی دو مشہور نظموں ”ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی“ کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

”ترانۂ ہندی“ علامہ اقبال کی فکر و شاعری کے پہلے دور، جو 1905ء تک چلا، میں لِکھی گئی تھی۔ اس دور میں علامہ اقبال نے حُبُّ الوطنی کے موضوع پر شاعری کی اور خوب مقبولیت پائی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اُن میں وہ انقلابی شاعر نظر آنے لگا جو انگریزوں سے آزادی کے لئے اُن کو جوش و ولولہ دلاتا تھا۔ علامہ اقبال کی شاعری کا موضوع یہ تھا کہ ہندوستان کی تمام اقوام اکٹھی ہو جائیں اور جو جغرافیائی خطہ ہندوستان کہلاتا ہے، اُس کی خاطر سب متحد ہو جائیں۔

پھر 1905ء میں علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ یہ اُن کی شاعری کا دوسرا دور تھا۔ قیامِ یورپ کے دوران علامہ اقبال کی حُبُّ الوطنی والی شاعری میں کمی آگئی۔ ”طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام“ جیسی نظموں سے نظریے کی تبدیلی کا اندازہ ہونے لگا۔

1908ء میں وطن واپسی کے بعد علامہ اقبال کی شاعری کا تیسرا دور شروع ہوا۔ اُس دور میں علامہ اقبال کا دائرہِ نظر وسیع ہو گیا اور صرف ہندوستانی شاعری کےبجائے، مِلّتِ اسلامیہ کے لیے شاعری شروع کر دی۔ اس پر جو ہندو اُن کو وطنی (یعنی ہندوستانی) شاعر کے طور پر دیکھتے تھے، وہ خفا بھی ہو گئے۔

علامہ اقبال کے ایک ہم وطن کشمیری پنڈت کی اُس موقع پر کہی نظم کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:-

ہندی ہونے میں ناز جسے کل تک تھا حجازی بن بیٹھا
اپنی محفل کا رِند پُرانا آج نمازی بن بیٹھا
محفل میں چھُپا ہے قیسِ حزیں دیوانہ کوئی صحرا میں نہیں
پیغامِ جنوں جو لایا تھا اقبالؔ وہ اب دُنیا میں نہیں [1]

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیامِ یورپ کے دوران ایسا کیا ہوا کہ علامہ اقبال کا نظریہ تمام ہندوستانی اقوام کا مذہب سے بالا تر ہو کر متحد ہو جانے سے بدل کر مِلّتِ اسلامیہ کو بیدار کرنے کی طرف مرکوز ہو گیا۔ اس کی کُچھ وجوہات تھیں۔

علامہ اقبال کے فلسفے کے استاد ڈاکٹر تھامس آرنلڈ نے اُن کی حوصلہ افزائی کی کہ اُن کو یورپ میں تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھانا چاہیے۔ در اصل اُن کا مقصد اور ہی کُچھ تھا۔ علامہ اقبال کی حُبُّ الوطنی والی شاعری ہندوستانیوں میں جو جوش و ولولہ پیدا کر رہی تھی، وہ برطانوی سامراجیّت کے لیے خطرہ بنتی جا رہی تھی۔ لہذا سامراج کے سر سے یہ خطرہ ہٹانے کے لیے اُنہوں نے علامہ اقبال کی توجہ بٹانا چاہی۔ ‘پھوٹ پڑواو، راج کرو’ کےاصول کی ایک چال ڈاکٹر آرنلڈ نے اُس وقت علامہ اقبال پر چلی [2]۔ علامہ اقبال نے لندن سے حسن نظامی کو ایک خط میں لکھا جس میں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے:-

”مسٹر آرنلڈ کا یہ خیال ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے ہندووں میں اسلام پھیلانے کے لئے باقاعدہ کوشش نہیں کی اور اب وہ وقت ہے کہ ایسا کیا جائے۔“ [3]

مگر ایسا نہیں تھا کہ علامہ اقبال برطانوی سامراجیّت کی اِس چال کے شکار ہو گئے تھے۔  جہاں لوگ اِس کو مسٹر آرنلڈ کی اسلام دوستی اور اسلام نوازی تصوّر کر رہے تھے، اگر اُس نے وقتی طور پر علامہ اقبال کو متاثر کِیا بھی، تو بعد میں وہ اِس کو خوب سمجھ گئے تھے۔ اس بات کا اندازہ علامہ اقبال کے اِس بیان سے ہوتا ہے:-

نذیر نیازی نے علامہ اقبال کا انٹرویو لیا، اُن کا کہنا ہے کہ آرنلڈ کی وفات کی خبر سُن کر علامہ اقبال کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، پھر سر جھکا کر چںد لمحے خوب روئے اور کہا:-

”اقبالؔ اپنے استاذ اور دوست سے محروم ہوگیا۔“

لیکن جب نذیر نیازی نے آرنلڈ کی اسلام نوازی کا ذکر کیا تو علامہ اقبال نے کہا:-

”اسلام؟ اسلام سے آرنلڈ کا کیا تعلق؟ آرنلڈ کی وفاداری صرف خاکِ انگلستان سے تھی۔ وہی اُن کا دین تھا اور وہی اُن کی دنیا۔ اُنہوں نے جو کُچھ کِیا، انگلستان کے مفاد کے لیے کیا۔ آرنلڈ کو مسیحیّت سے غرض تھی نہ اسلام سے، بلکہ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو آرنلڈ کیا ہر مستشرق (غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعہ میں مشغول ہونے کا نام استشراق یا Orientalism ہے) کا علم و فضل بھی وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو مغرب کی ہوسِ استعمار (Colonization) اور شہنشاہیت (Imperialism) کے مطابق ہو۔ اِن حضرات کو بھی شہنشاہیّت پسندوں اور سیاست کاروں کا دستِ بازو تصور کرنا چاہیے۔“ [4]

لہٰذا یہ نظریے کی تبدیلی کی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔

دوسرا یہ کہ تمام تر ہندوستانی، ہندوستان کا مُلک بنانے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ یہ اِس لیے تھا کہ یورپ میں نیشن سٹیٹ سسٹم (Nation-State System) کامیاب ہوا تھا اور اُسی کے سبب اُنہوں نے کافی ترقّی بھی کی۔ ہندوستانی یہ سمجھنے لگے تھے کہ اُن کی ترقّی کا راز بھی اب ایسی ہی نیشن سٹیٹ بنانے میں ہے۔ علامہ اقبال مگر جب یورپ میں مقیم رہے اور نزدیک سے اُس کا جائزہ لیا تو اُنہیں اندازہ ہوا کہ یورپی ممالک تو نسل اور زبانوں کی بنیاد پر بنے اور اس نمونے کا اطلاق ہندوستان جیسے ڈائورس (Diverse) اور متفرق اقوام والے خطے پر ممکن نہیں۔ ہندوستان ایک ایسا ملک تھا جس میں ایک سلطنت کے راج کے باوجود، ہر ریاست کا اپنا سربراہ تھا اور ہر ریاست کو خود ارادیّت اور قدرے آزادی حاصل تھی۔

اسلام کے بغور جائزے نے یہ حقیقت آشکار کی کہ وطن ایک بے بنیاد اور مصنوعی شے ہے جس پر اتحاد کی ایک مضبوط بنیاد قائم کرنا ممکن نہیں۔ لہذا اگر مختلف مذاہب، رنگ، نسل اور اقوام کے لوگ اکٹھے ہوں تو اُن میں کچھ تو ایسا مشترک ہونا لازم ہے جو اُن کو ایک قوم بنائے۔ یہ بنیاد علامہ اقبال نے توحید میں جانی اور یہ سمجھ لیا کہ اسلام کی قومیّت کی بنیاد صرف توحید پر ہے۔

نیشن سٹیٹ سسٹم (Nation-State System) کا  ہندوستان پر اطلاق ممکن نہ ہونے کے ساتھ، علامہ اقبال کو اِس بات کا اندازہ ہونے لگا کہ دو بڑی اقوام، ہندوؤں اور مسلمانوں کا مُتّحد ہونا اس لیے محال ہے کیونکہ ان دونوں میں کچھ بھی مشترک نہ تھا۔ اگر یہ ایک ملک میں رہیں گے تو اُس ملک کی بنیاد مغربی ممالک کی طرح Secularism یعنی الحاد پر رکھنا ہوگی۔ اس نئی مملکت کی یہ کمزور بنیاد علامہ اقبال کو کسی طرح منظور نہ تھی۔

 یہ علامہ اقبال کی بصیرت تھی کہ اُنہوں نے آغاز سے ہی ہندو مسلم اتحاد کے خواب دیکھنا چھوڑ دیے۔ اِس سے قبل صرف سر سیّد ہی تھے جو 1847ء سے مُتّحدہ قوم کا خیال چھوڑ چکے تھے اور کانگریس کے بھی مخالف رہے۔ اِس کے بعد کے سالوں میں کئی مسلمان لیڈر اُن ہندوؤں اور کانگریس کے روّیے کو دیکھتے ہوئے ایک ایک کر کے اس خیال کو دل سے نکالتے رہے (جن میں قائدِاعظم محمد علی جناح سرِ فہرست ہیں)۔ یہی مسلم لیگ کے قائم ہونے اور مسلمانوں میں اس کی مقبولیت کی وجہ بنی۔

ترانۂ ہندیترانۂ مِلّی
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی، یہ گلستاں ہمارا
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
دنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
اے آبِ رود گنگا وہ دن یاد ہیں تجھ کو؟
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
ونان و مصر و روما سب مِٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
اے گلستانِ اندلس وہ دن یاد ہیں تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے موجِ دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا دُشمن دورِ زماں ہمارا
اے ارضِ پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
سالارِ کارواں ہے میرِ حجاز اپنا
اِس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
اقبالؔ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

آئیے اب ان دونوں نظموں کا شعر با شعر تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔

علامہ اقبال کی نظم ”ترانۂ مِلّی“ اور ”ترانۂ ہندی“ کا تقابلی جائزہ

سارے جہاں سے اچھّا ہندوستاں ہمارا
ہم بُلبُلیں ہیں اِس کی، یہ گُلسِتاں ہمارا
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

دونوں نظموں کے مطلعے ملاحظہ ہوں۔ اوّل تو علامہ اقبال نے دونوں نظموں کی قافیہ بندی اور ردیف کو ایک سا رکھ کر اس میں ایک ہم آہنگی اور تسلسل پیدا کیا ہے مگر اس کے خیال اور فکر میں ارتقا ظاہر کیا ہے۔ پہلے مطلع میں جہاں وطن پرستی نظر آتی ہے۔ دوسرے مطلع میں عالمگیریت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اپنے اصل (Origin) کی بات کرتا ہے اور اُس کے سبب آرٹیفیشل کنسٹرکٹس (Artificial constructs) جیسا کہ وطن (ایک خِطۂ زمین) کی نفی کرتا ہے۔

غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دِل وطن میں
سمجھو ہمیں وہیں بھی، دِل ہو جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مِٹانا نام و نِشاں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

ترانۂ ہندی کا شعر مشکلات و بیرونی مسائل کے خلاف اپنے وطن کی محبت کا پرچار کر رہا ہے، جبکہ ترانۂ مِلّی کا شعر یہ باور کرا رہا ہے کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد توحید ہے۔ توحید  کیونکہ وطن کی طرح کوئی مصنوعی تخلیق نہیں، یہ وہ جذبہ ہے جو آپکو چاہے دنیا میں کہیں بھی ہو، اپنی اصل کی طرف لے جائے گا، اور کسی بھی طرح کے بیرونی مصائب کے خلاف کھڑا ہونے کی طاقت دے گا۔ اس لیے یہ ایک قوم کی مضبوط بنیاد ہے اور اس سے ہمارا نام و نشاں مٹانا مشکل ہو جائے گا۔

پربت وہ سب سے اونچا، ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا، وہ پاسباں ہمارا
دُنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

اپنے وطن کے زمینی خد و خال کی تعریف کی گئی کہ جس کی وجہ سے ہماری (ہندوستان کی) بڑائی ہے، کہ ہم آسمان کے ہمسائے ہیں۔ وطن ہماری حفاظت کرے گا اور ہم اُس کی۔

اِس سے بر خلاف، دوسری طرف اِس کو ایک بُت کی حیثیت دے کر توڑ دیا گیا ہے اور اپنے ملک کی زمین اور پہاڑوں جیسی مادی چیزوں سے نسبت جوڑنے کے بجائے، خانہ کعبہ سے نسبت جوڑ دی گئی ہے، جو ایسے تمام بُتوں کو توڑنے کی علامت ہے۔ خانہِ کعبہ کی طرف اشارہ ”خدا کا پہلا گھر“ قراردے کر کی گئی یعنی اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نسبت صرف محمدی ﷺ ہی نہیں بلکہ ابراہیمیٔ بھی ہے۔

حضرت ابراہیمٔ، جنہوں نے پہلی مرتبہ یہ گھر کھڑا کیا، اور جس مقصد سے کھڑا کیا، وہ قرآنی تصور پیشِ نظر ہے۔ جب ابراہیم کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی ایک ایسی جگہ ہو جہاں تمام لوگ خدا کی عبادت کے لیے آئیں، جہاں وہ سکون اور ارتکاز کے ساتھ خدا کی حمد کر سکیں، تو اُنہوں نے کعبے کی تعمیر کی۔ اس جگہ کا کوئی والی وارث نہ تھا، وہ تمام لوگ جو حق کی طرف پلٹتے، کعبے سے اِن کی نسبت ہوجاتی۔ قبلہ کی یہی مرکزیّت تمام مسلمانوں کو ایک قوم بناتی ہے۔ اِس سے ماورا کہ وہ کس زبان، نسل یا خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ وہ پہلا گھر خدا کا ہے جس کے ہم پاسبان ہیں اور جو ہمارا پاسبان بن کر ہمیں توحید کی بنیاد پر قومیّت دیتا ہے۔

گودی میں کھیلتی ہیں اِس کی ہزاروں ندیاں
گُلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

وطن کی تعریفی شاعری سے، جس میں قدرت و لطافت کی باتیں ہیں، اس سے نکل کر اُن آبا میں اپنا اصل تلاش کیا جنہوں نے کبھی آرام و آرائش کی زندگی بسر نہیں کی۔ جو ہمیشہ حق کی سر بلندی کے لیے پھرتے رہے۔ محض وطن کا حُسن و جمال بیان کر کے ہم کھوئی ہوئی میراث نہیں پا سکتے۔ ہمارے آبا وہ سب اس لیے پا سکے چونکہ وہ مسلسل جد و جہد میں رہے۔ یہی رستہ اب مسلمانوں کو اپنانا ہے۔

ہمیں ”وطن“ نام کی کوئی نئی شناخت پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی جو علامات ہمارے پاس موجود ہیں (خانہ کعبہ اور ہلال) وہی ہم کو اپنی شناخت کی طرف لوٹانے اور اپنا قبلہ درست کرنے کو کافی ہیں۔

اے آبِ رود گنگا! وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سَیلِ رواں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

اِس شعر میں علامہ اقبال اس حقیقت کو باور کرواتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہند میں آمد محض ہمارا آغاز نہیں تھا۔ یہ جو استعماری طاقت ہم پر مُسلّط ہے، اُس کی وادیوں میں بھی ہماری اذانیں گونجی ہیں۔ اسلام کا سیلان اور بہاؤ ایسا نہیں کہ کسی بارڈر پر آ کر تھم جائے۔ لہٰذا ایک ایسا ملک بنانا جس میں بسی آبادیوں کا آپس میں ہم وطنیّت کے سوا کوئی تعلق نہ ہو، ایک کمزور بنیاد کی عکاسی کرتا ہے۔

مذہب نہیں سِکھاتا آپس میں بَیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اے گلستانِ اُندلس وہ دِن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

اقبال کے افکار میں تبدیلی کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ مذہبی ہم آہنگی کے مخالف ہو گئے تھے۔ مگر یہ خیال کہ میرا مذہب، میرے ہندی ہونے سے بڑھ کر نہیں، اقبال کو پروبلمیٹک اور مشکوک لگنے لگا تھا۔ یہ خیال ایک ایسے وطن کی بنیاد ڈالتا ہے جو مادیت اور لادینیت پر مبنی ہے۔

جبکہ دوسرے دور میں اقبال پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ در اصل، ازل سے ابد تک صرف حق و باطل کی ہی جنگ جاری ہے۔ ہمیں جھوٹ کے خلاف حق اور سچ بات کہنی ہے۔ اسی کا ہم سے بار بار امتحان لیا جائے گا۔

یہی حالات آج ہمیں مختلف ممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں مسلمان اقلیت ہیں۔ وہ اپنے ملک سے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں اپنی تمام تر طاقت صَرف کر دیتے ہیں۔ یہ وفاداری ثابت کرنے کیلئے اکثر انہیں اپنے عقائد پسِ پُشت ڈالنا پڑتے ہیں، یا کم از کم ان سے امید یہ رکھی جاتی ہے۔ اور وہ حق و باطل کی مقصود جنگ سے نکل کر مفاہمت کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں جو نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ آج اس کی ایک بہت بڑی مثال بھارت کے مسلمان بن چکے ہیں۔ یہ نتیجہ ایسی ریاست کے قائم ہونے پر نکلتا ہے، جس نے اپنی بنیاد الحاد (Secularism) پر رکھی ہو۔

اے گلستانِ اندلس وہ دن یاد ہیں تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مِٹ گئے
جہاں سے اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا  
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

دورِ احیا (وہ زمانہ جب کسی قوم یا نظریے کو نئی زندگی ملے) کو پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماضی کے پنّے انسان کے سامنے کھُلے پڑے ہوں۔ جن کو نمونہ بنا کر وہ آگے جانے کا راستہ تراش سکے۔

اسی طرح مغرب و مشرق میں ہر طرف مسلمانوں کا وجود ایک حقیقت ہے۔ خواہ وہ ماضی میں ہو یا در حال۔

اے موجِ دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

دریائے دجلہ، جس کے کنارے بغداد آباد ہے، مسلمانوں کے آنے کی شہادت دیتا ہے۔ اس لیے مسلمان کے لیے نہ مشرق ہے نہ مغرب۔ یہ تمام جہان، انسان کے لیے تخلیق کیا گیا ہے اور حق کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں نہ بانٹے۔

کُچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
اے ارضِ پاک تیری حُرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

بالکل اُسی طرح جیسے مغرب و مشرق میں مسلمان گئے اور اُس زمیں کو اپنا سمجھ کر اس پر حق و باطل کی جنگ میں رہے۔ ویسے ہی ہندوستان کی سر زمین پر بھی کٹ مرے اور اس کو اُس معاشی معیار پر لا کھڑا کیا کہ اس کا GDP دنیا کا 25 تا 35 فیصد بن چُکا تھا [5]۔ اِس خطے (ہندوستان) میں پہلے سے موجود تہذیب و تمدّن کو اپنی زبان، کلچر اور ثقافت سے آراستہ کیا۔ وہ رنگ اور وہ محنت اب تک اس سر زمین پر واضح ہیں۔

اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
سالارِ کارواں ہے میرِ حجاز اپنا
اِس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

دورِ اوّل کے علامہ اقبال جو ایک لیڈر اور رہنما کی کمی کو محسوس کر رہے تھے، اور کسی کو اپنے حال کا محرم نہیں جانتے تھے۔ اب اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ جب قوم ایک نظریے پر بنے، اور وہ نظریہ توحید کا ہو تو اُس کا رہنما پانا مشکل نہیں۔ وہ امیر، امیرِ حجاز ﷺ ہے۔ علامہ اقبال اعلان کرتے ہیں گویا کہ یہ جو کارواں ہم اب لے کر چلیں گے، اس کا سالار صرف سرکارِ دو عالم، حضرت محمد ﷺ ہیں۔

اس قسم کا میرِ کارواں ایسے وطن کی جد و جہد کیلئے ممکن نہیں جس میں قوم الحاد کی بنیاد پر ہی اکٹھی ہو۔ اُن کو یا تو اپنے نظریے اور عقائد پر سمجھوتا کرنا پڑے؛ یا پھر اُن عقائد میں ایسی کوئی مشترکہ چیز ہی نہ ہو کہ جس سے وہ ایک لیڈر کے نیچے اکٹھے ہو سکیں۔ لہٰذا یہ وہ پہلی صدا تھی، جو دو قومی نظریے کی بنیاد بنی۔

اقبالؔ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
ترانۂ مِلّی اور ترانۂ ہندی: ایک تقابلی جائزہ

آخری شعر میں علامہ اقبال علی الاعلان اور کھُلّم کُھلّا اپنے پرانے خیالات سے رُخصت لے لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ علامہ اقبال کا ”ترانۂ مِلّی“ ہمارے لیے کاروان کی گھنٹی کا کام کرے گا۔ اب اِس صدا پر ہمارا قافلہ چلے گا اور اپنے لیے خود اپنا رستہ ناپے گا۔ اِس مرتبہ نظریے کی درستی کے ساتھ۔

حوالہ جات

  1. اقبالؔ: اقبالؔ کے سیاسی افکار، از: ظفر اقبال، صفحہ: 42
  2. اقبالؔ: جادونگر ہندی نژاد، از: عتیق صدیقی، صفحہ: 51 تا 52
  3. اقبالؔ: جادونگر ہندی نژاد، از: عتیق صدیقی، صفحہ: 51
  4. اقبالؔ: اقبالؔ کے سیاسی افکار، از: ظفر اقبال، صفحہ: 52 تا 53
  5. India and World Trade
  6. شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، صفحہ: 264 تا 278
  7. شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، صفحہ: 274 تا 275
  8. مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر، صفحہ: 199 تا 201
  9. آوازِ اقبال – بانگِ درا مع مطالب از نریش کمار شادؔ، صفحہ: 174 تا 175
  10. شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد، صفحہ: 219 تا 220
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments