”خوشحال خاں کی وصیّت“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
خوشحال خاں خٹک پشتو زبان کے مشہور حریّت پسند اور صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ آپ کی کم و بیش ایک سو بلند پایہ نظمیں پشتو زبان سے انگریزی میں منتقل ہو کر شائع ہو چکی ہیں۔ خوشحال کے دیوان کے اردو زبان میں بھی ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ مُغلوں کے تسلط سے افغانستان کو آزاد کرانے کے خواہاں تھے۔ اورنگ زیب کے عہد میں آپ نے متعدد پٹھان قبیلوں کو اکٹھا کر کے مغل سلطنت سے زبردست معرکہ آرائی کی، تاہم محض ایک آفریدی قبیلہ تھا جو آخر دم تک آپ کے ہم رکاب رہا۔ علامہ اقبال کے نزدیک خوشحال خاں خٹک ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے آزادی کی خاطر تمام عمر مغلوں کے خلاف نبرد آزمائی میں گزار دی۔ چار اشعار پر مشتمل یہ مختصر نظم ”خوشحال خاں کی وصیّت“ لکھی جو جنابِ خوشحال خاں کے جرأت مندانہ کردار کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی)
خوشحال خاں خٹک پشتو زبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا، جس نے افغانستان کو مُغلوں سے آزاد کرانے کے لیے سرحد کے افغانی قبائل کی ایک جمعیت قائم کی۔ قبائل میں صرف آفریدیوں نے آخر دم تک ساتھ دیا تھا۔
خوشحال خاں کی قریباً ایک سو نظموں کا انگیریزی ترجمہ 1862ء میں لندن میں شائع ہوا تھا۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”خوشحال خاں کی وصیّت“ کی تشریح
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گُم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
اس نظم میں اقبال نے سرحد کے مشہور وطن دوست شاعر خوشحال خاں کے جذبات کو اپنے انداز میں نظم کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ خوشحال خاں نے مرتے وقت سرحد کے افغانی قبائل کو یہ وصیّت کی کہ:-
اے مسلمانو! تم نے اپنے آپ کو قبائل میں تقسیم کر کے اپنی قوت کو منتشر کر دیا ہے۔ علاوہ بریں یہ قبائلی زندگی اور جماعتی تقسیمِ مذہب و مِلّت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے تم سب قبائلی امتیازات کو مِٹا کر ایک قوم بن جاؤ۔
؎ بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہوجا
نہ تُورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
(حوالہ: بانگِ درا: طلوعِ اسلام)
محبّت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
مجھے اپنے ان نوجوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں۔ ارضی مملکتیں تو الگ رہیں، یہ نوجوان تو آسمان کو تسخیر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور اپنی حوصلہ مندی و اولوالعزمی کے سبب مجھے بے حد عزیز ہیں۔
مغل سے کسی طرح کمتر نہیں
قہستاں کا یہ بچّۂ ارجمند
میں یہ چاہتا ہوں کہ قہستان (افغانستان کے ایک حصے کا نام) کا ہر نوجوان اپنے اندر عزمِ بلند پیدا کرے اور اس حیققت کو ذہن نشین کرے کہ میں جراءت و بہادری اور پامردی میں مغلوں سے کسی طرح کم نہیں ہوں۔ اس لیے ان کو مجھ پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات
وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند
اے میرے ساتھی! کیا میں تجھ سے اپنے دِل کی بات کہوں؟ وہ بات یہ ہے کہ خوشحال خاں کو ایسی جگہ دفن ہونا پسند ہے (تفصیل آئندہ شعر میں)
اُڑا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ
مُغل شہسواروں کی گردِ سمند!
کہ جہاں پہاڑ کی ہوائیں مغلیہ شہسواروں کے گھوڑوں کی گرد نہ لا سکیں مراد یہ ہے کہ ایک حُرّیت پسند اور جنگجو کی حیثیت میں خوشحال خاں کا سینہ مغلوں کے خلاف شدید نفرت کی آماجگاہ تھا۔ خوشحال خاں کہتے یہ علاقہ تو خیر تیرا اور میرے ہم وطنوں کا ہے۔ اس پر مغل فوجوں کی یلغار کیسے برداشت ہو سکتی ہے؟ وہ سمجھتے تھے کہ مغلوں نے اس کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کر کے افغان باشندوں کی آزادی سلب کر لی ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کے تحت وہ ساری عمر مغلوں کے خلاف نبرد آزما رہے۔
نوٹ
کاش ایسی ہی نفرت مسلمانوں کو اس قوم سے ہو جائے جس نے 1857ء میں فرخ آباد (یو-پی) کے مسلمان مجاہدوں کو شکست دینے کے بعد ان کے سردار کو پہلے سُور کا گوشت کھلایا، پھر اس کی چربی جسم پر ملی، اس کے بعد پھانسی دی۔ کاش وہ دِن جلد ہی آ جائے جب قوم کا ہر فرد جذبۂ جہاد سے سرشار ہو جائے-
(شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی
- شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی