غزل ”مارچ 1907ء: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
غزل ”زمانہ آیا ہے بے حجابی کا“ کو پڑھتے ہوئے یہ مدِّ نظر رکھنا ہوگا کہ یہ سیاسی و تاریخی اعتبار سے ایک اہم زمانہ ہے۔ علامہ اقبال نے اور کسی تاریخ کو اپنی کسی غزل کا عنوان نہیں بنایا، مارچ 1907ء کی تاریخ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہ اقبالؔ کا ایک فکری سنگِ میل ہونے کی حیثیت رکھتی ہے اور علامہ کی ارتقائے فکر کا اعلان کرتی ہے۔ یہ تاریخ اس لیے مرتّب کی گئی کہ اس تاریخ سے علامہ اقبال کی شاعری کا دوسرا دور ختم ہو جاتا ہے۔
شارحین میں اِس غزل کو لے کر اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس کا شمار صنفِ غزل میں ہوتا ہے یا صنفِ نظم میں۔ میرا اِتّفاق ان مشارح کی آراء سے ہے جن کا ماننا ہے کہ اس کا شمار غزلیّات میں ہوتا ہے، جس کی وضاحت آگے پیش کی جائے گی۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف عنوان کا ہونا نظم کی خاص بات ہے، ورنہ مزاج کے اعتبار سے یہ غزل ہی کی حیثیّت رکھتی ہے۔ مگر یہ سمجھنے کے لیے ہمیں ایک کُلّی نظر علامہ اقبال کی غزل کی طرف بھی کرنا ہوگی۔
علامہ اقبال کی غزل کا اس قدر مختلف ہونا اِس کو ایک جُداگانہ صنف ہونے کی حیثیّت دیتا ہے۔ علی سردار جعفری فرماتے ہیں کہ:-
”مدرسوں اور کالجوں میں اور عام تنقیدی مضامین میں غزل کی جو تعاریف کی جاتی ہے اُس پر علامہ اقبال کے یہ اشعار پورے نہیں اُترتے۔۔ علامہ اقبال کی غزل میں نہ قنوطیت ہے، نہ ابہام، نہ عدم وضاحت۔ یہ بلند آہنگ اور بے باک غزل ہے۔ اس میں مائیکل انجلو (Michelangelo) کے فن کی طاقت ہے۔“
سرسی جائزہ
غزل کا مزاج بتا رہا ہے کہ یہ غزل علامہ اقبال نے گویا نکّارہ پیٹتے ہوئے کہی ہے۔ اِس میں مسلمانوں کا ایک قوم ہونے کی طرف اشارہ ہے، جو حقیقتاً تو ایک ہے، مگر کمزور اور بکھری ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ غزل اجتماعیّت کی طرف ایک پُکار ہے۔ اس میں نئے مقاصد کا تعیّن کیا گیا ہے اور نہ صرف اُن کے حصول کی طرف اشارہ ہے بلکہ نتائج تک پہنچ جانے کا اِندیہ ہے۔ یہ سب اِس غزل کے مشمولات ہیں اور قاری کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظم خوشی اور اُمّید کے لہجے سے کہی جا رہی ہے۔
تاریخی پس منظر
ہندوستان کے جس سیاسی اور تاریخی پس منظر میں یہ غزل کہی جا رہی ہے، وہ انقلابی وطنیّت کے عروج کا دور ہے۔ اُس دور کے حالات و واقعات نے کئی مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا، عین ممکن ہے کہ علامہ اقبال کے اس ارتقائے فکر کا باعث بھی یہی بنا ہو۔
سیاسی پس منظر کی تفصیلات:
برطانوی راج کی جانب سے تقسیمِ بنگال کی گئی جو مسلم اکثریّتی علاقوں کو الگ کرتی تھی۔ مسلمانوں کے حق میں یہ فیصلہ اچھا ثابت ہوتا تھا کیونکہ وہ انکو حقِ خود ارادیت دیتا تھا۔ البتہ ہندوؤں نے اس پر شدید ردِ عمل پیش کیا اور سوادیشی تحریک کا آغاز کر دیا۔
چند مورخین لکھتے ہیں کہ یہ ہندو اور مسلم کو تقسیم کرنے کے لیے انگریز کی سوچی سمجھی سازش تھی۔ مگر سوادیشی تحریک میں مسلمانوں کو جس بیگانگی کا سامنا کرنا پڑا، اُس سے یہ ثابت ہوا کہ ہندو و مسلم کا ایجینڈا (agenda) اور مقصد ایک نہ تھا۔
۱۸۵۷ء کے بعد سوادیشی تحریک پہلی ایسی منظّم کوشش تھی جو انگریزوں کے خلاف ہوئی۔ اس کوشش کا آغاز ۱۹۰۵ء میں ہوا اور یہ انگریز حکومت کے تقسیمِ بنگال کے فیصلے کے نتیجے میں ہندوستانیوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کے لیے انگریزی اور دیگر بیرونی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ اس کا حاصل یہ ہونا تھا کہ برطانوی راج کو معاشی طور پر کمزور کر دیا جائے، اور ہندوستانی معیشت سے ان کو بے دخل کرنا شروع کیا جائے۔ لیکن اس تحریک کے بیشتر ہندو قائدین نے اسکو ہندو رنگ دینا شروع کردیا جس سے تحریکِ آزادی میں شامل مسلمانوں کو بیگانگی اور لاتعلقی کا احساس ہونے لگا۔
ہندوؤں نے قدیم ہندو تہذیب پر زور دینا شروع کیا اور اِس کو ہندوستان کی شناخت کا مرکز بتایا جبکہ قرونِ وسطیٰ یعنی کہ وہ دور جو ہندوستان میں مسلمانوں کے عروج کا دور تھا، اُس کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔اروند گھوش جیسے لیڈران نے تحریک میں ایسے خیالات متعارف کروائے جس میں ‘ہندوستان کی سر زمین’، ‘ماں’ اور ‘جذبۂ وطنیّت’ کے ‘دین‘ ہونے کا چرچا کیا گیا، جو مسلمانوں کے عقائد کے مطابق بالکل ناقابلِ قبول تھا۔ اس کے علاوہ ہندو تہذیب کے پرچار اور اس کے تہواروں کی صورت گری (representation) ہی اس تحریک کا مرکز بن کر رہ گئی۔
چونکہ اس تحریک کی بُنیاد وطنیّت کے جذبے پر تھی، لہذا اس پس منظر میں علامہ اقبال سمیت اور کئی مسلم لیڈران باہمی تحریکِ آزادی سے متنفّر ہوگئے اور ہندوستان کی سیاست میں اب ہندو رنگ غالب آنے لگا۔ اس لیے علامہ اقبال سمیت بہت سی اور مسلم قیادتیں جذبۂ وطنیّت کے کھوکھلے پن کو پہچان گئییں۔ یہی ادراک، ۳۰ دسمبر، ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کے قیام کی وجہ بنا۔
اسی دور میں، انگریزوں نے چند ایسے سمجھوتے والے بل پیش کیے جو ہندوستانیوں کی آزادی کے حق میں نہ تھے اور مسلمانوں کو احساس ہوگیا کہ ہندو مسلم کی مجموعی سیاست سے اب کوئی فائدہ نہیں، چنانچہ اب اپنا بیڑا خود ہی اٹھانا ہوگا۔
علامہ اقبال کا ذاتی پس منظر
علامہ اقبال کی شاعری کا دوسرا دور (۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء) قیامِ یورپ کے دوران تھا۔ اس دور میں اُنہوں نے مغربی تہذیب کا بغور جائزہ لیا۔ وطنیّت کا نظریہ در اصل مغربی تھا۔ اس کی ابتدا بھی وہیں اور اس کی بنیاد الحاد (secularism) پر رکھی گئی۔ کئی یورپی ممالک، جنہوں نے ترقی حاصل کی تھی، ایسے ہی وطن کی بنیاد پر کی تھی۔ مشرق میں بھی اب لوگوں کو الحاد کی بنیاد پر قائم کردہ ایک وطن کی صورت میں اپنی نجات نظر آرہی تھی، اور یہ لوگ زیادہ تر مغرب زدہ (westernized) تھے اور مغرب ہی کی طرف دیکھ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔
اِس ذاتی، سماجی اور سیاسی پس منظر میں یہ غزل کہی گئی۔
”زمانہ آیا ہے بے حجابی کا“ مع تشریح و تبصرہ
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
بے حجابی | بے پردگی |
دیدارِ یار | محبوب کا نظر آنا (جلوہ) |
سکُوت | خاموشی، چُپ رہنا |
پردہ دار | پردہ رکھنے والا |
راز | بھید |
آشکار | ظاہر |
تشریح و تبصرہ:
چونکہ یورپ کا سرمایہ دارانہ (capitalist) اور مادہ پرستانہ (materialistic) نظامِ حیات باطل ہو چُکا ہے، اِس لیے اب دینِ اسلام کی تبلیغ اور اِشاعت کا زمانہ آ گیا ہے۔ لہذا اسلام کے پاکیزہ اصولوں کی اشاعت تمام مسلمانوں پر فرض ہے تاکہ ساری دُنیا اس کے نور سے منوّر ہو سکے۔
الحاد کے پردے میں ہندوستانی مسلمان جو دوہری زندگی بسر کر رہے تھے (جو آج بھِی اتنی ہی متعلقہ ہے)، اب اس پردے کو چاک کرنے کا وقت آ گیا ہے کیونکہ الحادی وطنیّت اور اسلامی اُمّت کا اصول باہم مطابقت نہیں رکھتے.
اس لیے سیاست میں داخل رہنے کے لیے الحاد کا حجاب اوڑھے رکھنا پڑتا تھا۔
اسلامی نظامِ سیست و حکومت کے حقائق اب تک پردوں میں پوشیدہ تھے، اور مسلمان اس کی عَلمبرداری سے غافل تھے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان حقائق کو منظرِ عام پر لایا جائے۔
گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھُپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مےخانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
مے خانہ | شراب خانہ |
بادہ خوار | شراب پینے والا |
تشریح و تبصرہ:
۱۹۰۶ء میں برطانوی راج نے ہندوستان میں آزادیِ اظہارِ خیال (Freedom of Thought) کا قانون نافذ کیا تھا، لہذا اس قانون سے پہلے اس سوچ کے حامی افراد اس کو چھُپ کر عمل میں لاتے تھے۔ مگر اب کچھ تبدیلیاں ہونگی اور اُن خیالات کا اظہار سرِ عام ہوگا۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی اس شعر کی تشریح میں لِکھتے ہیں:-
”وہ دور گذر گیا جب انگریزوں کے خوف سے مسلمان علماء حجروں میں چھُپ کر دینِ اسلام کے حقائق بیان کرتے تھے۔ اب انشاءاللہ مسلمان اعلانیہ، اسلام کی حقّانیّت، یورپ کے شہروں میں تقریر اور تحریر کے ذریعے سے بیان کر سکیں گے اور ساری دُنیا کو اسلامی اصولوں سے روشناس کر دیں گے۔
شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
کبھی جو آوارۂ جُنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
آوارۂ جنوں | بھٹکنے والے، پریشان |
آ بسنا | آباد ہونا |
برھنہ پائی | ننگے پاؤں ہونا |
خار زار | کانٹوں کا میدان، کانٹوں بھری جگہ |
تشریح و تبصرہ:
وہی کوششیں جو ہم کسی اور سَمت میں کرتے رہے اور کسی اور رستے میں مشکلات اُٹھاتے رہے، اب بھی مشکلات ویسی ہی رہیں گی، مگر یہ ایک نئی کانٹوں بھری جگہ ہے جہاں ننگے پاؤں ہم چلیں گے۔
یعنی جو لوگ نظامِ اسلام کی تڑپ رکھتے تھے لیکن قوم اور ماحول اور حالات سے مایوس ہو کر گوشۂ گمنامی میں چلے گئے تھے، انشاء اللہ اب پھر دوبارہ میدانِ عمل میں آئیں گے۔ اُن کی جد و جہد (برہنہ پائی) کا عالم تو وہی رہے گا، لیکن محاذِ جنگ بدل جائے گا یعنی جہاد کا طریقہ (خار زار) بدل جائے گا۔ مثلاً زبان کی بجائے تلوار اور قلم سے کام لیں گے۔
سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
گوشِ منتظر | وہ کان جو بات سننے کے انتظار میں تھا |
حجاز کی خامشی | اسلام کی زبانِ حال |
باندھا جانا | قول و قرار ہونا |
اُستوار | مضبوط باندھا جانا |
تشریح و تبصرہ:
وہ سارا کُچھ جو پہلے علامہ اقبال نے حاصل کر لیا ہے، تمام تر علم، سمجھ اور تجزیہ، وہ حجازی میں تبدیل ہوگا اور پھر قوم کی نذر ہونے جا رہا ہے۔
علامہ صاحب کو ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ اللہ تعالی کی رحمت کا پھر سے نزول ہو گا اور آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ نے جو کرم اہلِ عرب پر کیا تھا، وہی کرم اب دوبارہ مِلّتِ اسلامیہ پر نازل ہوگا، یعنی اللہ تعالیٰ انہیں عروج عطا فرمائیں گے۔
واضح ہو کہ لفظ صحرائی کا استعمال یہاں طنزاً نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔ کیونکہ اس سے مراد ایسا انسان ہے جو مشکلات کی گود میں پلا ہے اور سخت گیر ہے، اور یہ ماحول خالصتاً رسول اللہ ﷺ والا ہے۔
؎ اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سر مستی و رعنائی
(حوالہ: بالِ جبریل: لالۂ صحرا)
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
روما | مراد روم کا مُلک، جس کے عیسائی حکمران عباسی خلفا سے خوف کھاتے تھے |
اُلٹ دینا | ختم کر دینا، مِٹا دینا |
قدسیوں | فرشتوں |
شیر | مراد مسلمان مجاہد |
ہشیار ہوگا | بیدار ہوگا، جاگ جائے گا |
تشریح و تبصرہ:
مستقبل کا جو خواب علامہ اقبال کے اس نئے نتیجے پر پہنچنے سے جنم لیتا ہے، اس میں ایک عنصر قرآن پاک کی اِس آیت کا بھی ہے:-
غُلِبَتِ الرُّوْمُ
ترجمہ: اہلِ روم مغلوب ہو گئے۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ الروم: آیت نمبر 2)
قدسیوں سے یہ سننا اس کو ایک الحام کی سی صورت دیتا ہے کیونکہ ایسا ہونا ایک اٹل حقیقت بن کر رہے گا۔ اس سے علامہ اقبال نے اس زمینی حقیقت کو عرش سے جا کر جوڑ دیا ہے۔
شیر کا ہوشیار ہونا، اُمّت کے احیاء (rebirth) کے خواب کی علامت ہے۔ عسکری پہلو کو بھی بالکل یوں دیکھنا چاہ رہے ہیں جیسے قرونِ اولیٰ میں تھا۔
جس مسلمان قوم نے کسی زمانہ میں قیصر (شاہِ روم) اور کسریٰ (شاہِ ایران) کے تخت اُلٹ دیے تھے، وہ قوم اب پھر بیدار ہونے والی ہے۔
کِیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیرِ میخانہ سُن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
تذکرہ | ذکر |
بادہ خوار | شراب پینے والے |
انجمن | محفل |
پیرِ مے خانہ | شراب خانہ کا بوڑھا مالک |
منہ پھٹ | زبان دراز، گستاخ جو کھُل کے بات کہہ دے |
تشریح و تبصرہ:
مغرب زدہ ادارے (institutions) اور افراد ہی وہ مے خانے اور ساقی ہیں جن کی اب تک یہی تنقید ہے کہ علامہ اقبال رجعت پسند، بنیاد پرست (fundamentalist) اور غیر عَمَلی انسان ہیں جو مسلمانوں میں شدّت پسندی لانا چاہتے ہیں جس کی آج کے دور سے مناسبت نہیں۔
مگر در اصل بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کے لیے مغربیّت (westernization)، جدیدیّت (modernization) کے مترادف نہیں اور علامہ اقبال ہر لحاظ سے جِدّت پسند ہیں۔
دوسرا، علامہ اقبال کا یہ ارتقاءِ فکر کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں تھا۔ بہت سے سیاستدان اور ہندو قیادت، علامہ اقبال کی اس تبدیلی سے نالاں تھے۔ علامہ اقبال کے ایک ہم وطن کشمیری پنڈت کی کہی نظم کے دو اشعار ملاحظہ ہوں:-
ہندی ہونے میں ناز جسے کل تک تھا، حجازی بن بیٹھا
علامہ اقبالؔ: علامہ اقبالؔ کے سیاسی افکار، از: ظفر علامہ اقبال، صفحہ: 42
اپنی محفل کا رِند پُرانا، آج نمازی بن بیٹھا
محفل میں چھُپا ہے قیسِ حزیں، دیوانہ کوئی صحرا میں نہیں
پیغامِ جنوں جو لایا تھا اقبالؔ، وہ اب دُنیا میں نہیں
جس بے حجابی اور حکمتِ عملی کے بغیر بولنے کا اعلان علامہ اقبال یہاں کر رہے ہیں، اس کی راہ میں سراسر خواری ہے کیونکہ اب نہ انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہے نہ کسی اور کی، بلکہ اپنے اصولوں سے صداقت برتنے کا وقت آگیا۔ لہذا اقبالؔ کو اس بات کا ادراک ہے کہ یہ جو راہ میں نے اپنے لیے منتخب کی ہے، یہ ایک کٹھن راستہ ہے۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
دیارِ مغرب | مغربی ممالک، یورپ |
خدا کی بستی | دُنیا |
زر کم عیار | کھوٹا سونا |
تشریح و تبصرہ:
اے اہلِ مغرب! یہ دُنیا بہرحال دُنیا ہے اور اس میں اللہ کی مخلوق بھی آباد ہے۔ یہ کوئی دکان یا تجارتی ادارہ نہیں ہے جس پر تمہارا قبضہ ہو سکے، جس پر تمہارا حکم نافذ ہو سکے۔ آگاہ ہوجاؤ کہ جس تہذیب کو تم دنیا والوں کے حق میں مفید قرار دیتے ہو، وہ عنقریب اُن کے لیے وبالِ جان بن جائے گی۔
مغربیت کی کلید دکان داری اور مادہ پرستی (Materialism) میں ہے۔ تاریخی پس منظر میں، یہ وہ وقت ہے جب ہر یورپی ملک ایک دوسرے کو پیچھے ہٹانے اور تجارتی منڈیوں پر قابض ہو جانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اس کوشش میں اپنی نوآبادیوں (colonies) میں بسنے والوں کو مختلف طریقوں سے اپنا وفادار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لہذا علامہ اقبال یہاں ان کے ارادوں کو پورا نہ ہونے دینے کا اعلان فرما رہے ہیں۔
؎ گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
(حوالہ: بالِ جبریل: ساقی نامہ)
عالمی تناظر میں سرمایہ داری کے خلاف اس جوش و ولولے کی ایک وجہ انقلابِ روس (Russian Revolution) کی جنبش بھی ہو سکتی ہے، اگرچہ ۱۹۰۵ء میں وہ ناکام ہوچکا تھا، مگر اُس میں تبدیلی کا جذبہ علامہ اقبال کو بھایا۔
جن لوگوں کو انگریز حکومت اپنا وفادار جان رہی ہے، اس کی وفاداریاں اس کے ساتھ اب نہ ہونگی اور وہ کھوٹے سکے ثابت ہوں گے۔ جیسا کہ سوادیشی تحریک میں انگریزی مصنوعات کے مقاطعہ سے ظاہر ہوا۔
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
تہذیب | سوسائٹی کے اصول اور رسوم و رواج |
خودکشی کرنا | خود کو موت کے گھاٹ اُتارنا |
شاخِ نازُک | کمزور ٹہنی |
آشیانہ | گھونسلا |
نا پائیدار | کمزور، غیر مضبوط |
تشریح و تبصرہ:
مغربیت اور تہذیبِ مغرب کی تنقید، علامہ اقبال کے حوالے سے ایک حساس مسئلہ ہے۔ علامہ صاحب کا مختلف ادوار میں اور اس وقت کے سیاسی پس منظر میں مغریبیت کی طرف نقطۂ نظر ہمیشہ متنازعہ (controversial) رہا۔
ایسا نہیں ہے کہ علامہ اقبال کُلی طور پر مغرب سے بے بنیاد نفرت کر رہے ہیں۔ اس تہذیب کے ہر پہلو کا جائزہ علامہ کے پیشِ نظر رہا۔ اس لئے مغرب کے کچھ پہلوؤں کی بہت تعریف بھی کی۔ جیسا کہ نظام کی درستی اور ادارے کا فرد پر اختیار ہونا۔ مگر کُلی طور پر مغربی تہذیب کو ایک عظمت قرار نہیں دیا۔
یہ شعر علامہ اقبال کی اپنے تجزیے کی بنیاد پر ایک پیشین گوئی ہے، اسی طرح آپ نے دیگر ممالک کے لیے بھی سیاسی و تہذیبی پیشین گوئیاں کیں۔ مثلاً روس کے متعلق پیشن گوئی:-
؎ یہ وَحی دہریتِ رُوس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات!
(حوالہ: ضربِ کلیم: بلشویک رُوس)
اسی طرح چین کے متعلق علامہ کا مشہور شعر بھی تجزیہ کی بنیاد پر ایک پیشن گوئی ہے۔
؎ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
(حوالہ: بالِ جبریل: ساقی نامہ)
اسی طرح مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور الحاد کی بنیاد پر قائم کردہ حکومتوں کو شاخِ نازک کا نام دیا ہے۔ جس کی بنیاد اٹل اصولوں پر نہ ہونے کی وجہ سے وہ جلد زوال پزیر ہوگی۔
گو مستقبل قریب میں دونوں عالمی جنگوں کی صورت میں یورپ اپنے اس نظام کی وجہ سے بہت کمزور ہوگیا۔ مستقبل دُور میں یہ پیشن گوئی مغربی سماج کی بربادی کی بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ اب بھی مغربی تہذیب معاشی طور پر مستحکم ہے، لیکن سماجی طور پہ کھوکھلی ہوچکی ہے۔ اور حالیہ کچھ ماہ سے برطانیہ، جرمنی اور امریکہ جیسے ملک سودی نظام کی وجہ ہی سے ڈیفالٹ (Default) کی طرف جا رہے ہیں۔
؎ تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدّن کی بنا سرمایہ داری ہے
(حوالہ: بانگِ درا: طلوعِ اسلام)
سفینۂ برگِ گُل بنا لے گا قافلہ مُورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
سفینہ | کشتی |
برگِ گل | پھول کی پتی |
قافلہ | کارواں |
مورِ ناتواں | کمزور چیونٹی، مراد مسلمان |
کشاکش | کشمکش، مخالفت، کھینچا تانی |
تشریح و تبصرہ:
کمزور چونٹیوں کا قافلہ پھول کی پتیوں کی کشتی (سفینۂ برگِ گُل) بنا لے گا۔
ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات میں مسلمان بہت کمزور ظاہر ہو رہے تھے۔ چونکہ چند امراء اور نوابوں کے سوا، بیشتر مسلمان عوام نہ با اثر تھے، نہ بہت تعلیم یافتہ تھے (کیونکہ انگریزی تعلیم سے اجتناب کرتے تھے)، ہندوؤں کے مقابلے میں زمیندار بھی کم تھے۔ سب سے بڑی بات کہ اسلامی اقدار سے خالی ہوچکے تھے اور اب تو براہِ راست سیاست میں سے بھی بے دخل کردیے گئے تھے۔ ان حالات و واقعات کے تناظر میں ان کی حیثیت مورِ ناتواں سے بڑھ کر کچھ نہ رہی تھی۔
یہ شعر آج کے دور کے لیے بھی اتنا ہی متعلقہ ہے کیونکہ مسلمان اسی زبوں حالی کا اب بھی شکار ہیں۔مگر یہاں، اس مورِ ناتواں کو حوصلہ نہیں ہارنا۔ کیونکہ جیسے بھی حالات درپیش ہوں، اگر مسلمان اتحاد ظاہر کریں تو چونٹیوں کی طرح موجوں کی کشاکش میں بھی دریا پار کر سکتے ہیں۔
یہ کمزور چونٹیوں کا قافلہ ہی تھا کہ مسلم لیگ کے قائدین کچھ ہی عرصے میں پاکستان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
چمن میں لالہ دِکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دِکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
لالہ | ایک پھول، غالباً مراد ہے واعظِ قوم سے |
داغ | دھبّہ |
کلی | غُنچہ |
دِکھاوا | ظاہری بات، ریاکاری |
دِل جلوں | دِل جلانے والے، عاشق |
تشریح و تبصرہ:
اس وقت کے قومی لیڈران کے دِکھاوے کی طرف اشارہ ہے جو دین مذہب سے بالا تر ہوکر، وطنیّت کے جذبے کو ابھار رہے تھے۔ لیکن وطنیّت وہ داغ تھا، جس سے دِل جلوں میں شمار ہونا مشکل تھا۔ کیونکہ یہ ایک باطل عقیدہ تھا اور مِلت کو یوں (وطنیّت کی بنیاد پر) جوڑا نہ جا سکتا تھا اور یہ لہو لگا کر شہیدوں میں شمار ہونے کے مترادف تھا۔ جیسے سوادیشی تحریک میں ہندوؤں نے اپنی مِلّت کو یکتا کیا، وہی اب مسلمانوں کو بھی کرنا ہوگا۔
جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
کیفیّت | اندرونی حالت |
اعتبار | بھروسہ |
تشریح و تبصرہ:
مشارح نے اس سے دو مطلب اخذ کیے ہیں۔
اوّل تو یہ کہ اس کا اشارہ اسلامی فرقہ واریّت کی طرف ہے۔ ایک اسلام کی مختلف تعبیرات کی وجہ سے اس کو اتنا تقسیم کر دیا کہ اب اعتبار کرنا مشکل ہوگیا ہے، اور لوگ اسکو چھوڑکر متبادل (جیسا کہ وطنیّت) تلاش کرنے لگے ہیں۔
دوم کہ اس شعر سے وحدت الوجود کے خیال کی طرف اشارہ ہے۔ چونکہ علامہ اقبال اس کے حامی رہے اور یہ علامہ اقبال کی فکر پر بہت اثر انداز رہا۔ وحدت الوجود کا نظریہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے اور کائنات میں موجود چیزیں اور مختلف مناظرِ فطرت اسکی ذات کا عکس ہیں، مظاہر ہیں۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی شرح بانگِ درا میں اس شعر کا دوسرا مطلب درج کرتے ہیں:-
دوسرا اور دقیق (پیچیدہ / مُشکل / دُشوار) مطلب یہ ہے کہ در اصل ساری کائنات ایک مستقل وحدت یا اکائی ہے لیکن انسانی آنکھ چونکہ قوم قوم پر ٹھوکریں کھاتی ہے اور مبتلائے فریب ہو جاتی ہے، اس لیے وحدت کو کثرت میں تبدیل کر دیا یعنی انسان کی اپنی نادانی اور غلط فہمی کی بنا پر اشیائے کائناے میں امتیاز کرتا ہے۔ وہ گُل، خار، چاند اور سورج، حیوان اور انسان، نباتات اور جمادات میں امتیاز کرتا ہے، حالانکہ یہ تمام اشیاء اُسی ذاتِ واحد کے مظاہر ہیں اور در اصل ان کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
میں پہلی تشریح کی طرف زیادہ راغب ہوں، اسکی وجہ یہ ہے کہ غزل میں شروع سے مضامین کا تسلسل چلا آ رہا ہے اور یک دم وحدۃ الوجود کی طرف اشارہ عقل کو اپیل (appeal) نہیں کرتا۔ علامہ اقبال، جو اب سے پہلے وطنیّت کے حامی رہے، اس غزل میں اس خیال کی تردید کر رہے ہیں۔ اس لیے مِلّتِ اسلامیہ کا ایک ہونا ہی کافی ہے۔
کہا جو قُمری سے مَیں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گِل ہیں
تو غُنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
قمری | فاختہ کی قسم کا ایک پرندہ |
پا بہ گُل | جن کے پاؤں مٹی / کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہوں، مراد غلام |
راز دار | بھید جاننے والا |
تشریح و تبصرہ:
ہم نے دیکھا کہ غزل میں مغرب پر براہِ راست تنقید اس لیے ہے کہ یہ اعلانیہ کہنا ہے کہ جیسے پہلے مغرب کے زیرِ اثر تھے، اب نہیں رہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ زیادہ تر آزادی خواہ لیڈران ہندو ہوں یا مسلمان، مغرب زدہ تھے۔
لفظ ‘آزاد’ سے اشارہ سرو کے درخت کی طرف ہے۔ سرو کا درخت، تمام درختوں سے لمبا ہوتا ہے۔ اس نسبت سے اسے آزاد کہا جاتا ہے۔ مگر باقی تمام درختوں کی طرح اس کی جڑیں بھی زمین نے جکڑ رکھی ہوتی ہیں۔ لہذا یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاوں بھی زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال کا اس بات سے اشارہ ان مغرب زدہ سیاستدانوں کی طرف ہو سکتا ہے، جو سب سے اونچے اور جُدا نظر آتے ہیں کیونکہ تحریکِ آزادی کے لیڈران ہیں، مگر چونکہ اُن کے مقصد کا حصول صرف مغربیّت پا لینے میں ہے، اس لیے انکی سوچ آزاد نہیں۔اس لیے ‘غنچے’ یا قوم کے نوجوان یہ بات جانتے ہیں کہ جو ان کو پا بہ گُل کہنے کی جرأت رکھتا ہے، وہ ہی ہمارا رازدار بنے گا۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
بنوں | جمع بن۔ صحرا، بیاباں، جنگل |
بندہ | غلام، نوکر |
تشریح و تبصرہ:
علامہ اقبال نے کبھی بھی مذہب کے نام پر دنیا سے کنارہ کشی (یعنی رہبانیّت) کو پسند نہیں کیا، بلکہ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے لڑنے کو مذہبی فریضہ سمجھا۔ لہذا سیاسی و سماجی طور سے قوم کے خدمت گزاروں کو ہی علامہ اقبال سراہتے ہیں۔
یہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
رہے گی کیا آبرُو ہماری جو تُو یہاں بے قرار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
رسم | طور طریقہ |
جنبشِ نظر | آنکھ کا ہِلانا، حرکت |
آبرُو | عزت، احترام |
بے قرار | بے چین |
تشریح و تبصرہ:
جو لوگ خدمتِ قوم کے آرزو مند ہوں، اُن کو اِس حقیقت کو ہمیشہ مدِّنظر رکھنا چاہیے کہ خدمتِ قوم، پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ اِس راہ میں بہت دُشواریاں لاحق ہوتی ہیں اور خادمِ قوم کو لازم ہے کہ وہ زبان سے اُف تک نہ کرے (جنبشِ نظر بھی گُناہ ہے)۔ جو لوگ ضعفِ ایمانی کی بنا پر حرفِ شکایت زبان پر لاتے ہیں، قوم میں اُن کی کوئی عزت باقی نہیں رہتی۔
پچھلے شعر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، علامہ اقبال اس راہ کو دشوار قرار دیتے ہیں۔ جہاں اس راہ سے ذرا سا بھی منتشر ہونا یا اس راہ پر ہوتے ہوئے اپنی خواہشات کی پیروی کرنا، بے آبرو ہونے کے مترادف ہے۔
؎ نظّارے کو يہ جنبشِ مژگاں بھی بار ہے
نرگس کي آنکھ سے تجھے ديکھا کرے کوئی
(حوالہ: بانگِ درا)
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفَس مرا شعلہ بار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
ظُلمتِ شب | رات کی سیاہی |
درماندۂ کارواں | قافلے سے بِچھڑا ہوا |
شرر فشاں | شعلے برسانے والا، شعلہ بار |
نفس | سانس۔ مراد کلام / شاعری |
شعلہ بار | آگ کی لپٹ برسانے والا |
تشریح و تبصرہ:
اگرچہ وسائل کی کمی ہے، مسلمان مالی و سماجی طور پر کمزور ہیں، اِنتشار کا شکار ہیں اور بچھڑے ہوئے ہیں۔ مگر شب کی اس ظلمت میں، میری ہمت، حوصلہ اور جذبہ ہی مجھ کو کافی ہوگا۔ روشنی کے لیے میری آہیں چنگاریاں برسائیں گی اور میری سانس سے شعلوں کی بارش ہوگی۔ یہ آگ علامہ اقبال کے جذبے اور ولولے کی آگ ہے۔ جس سے اب اُن کے اردگرد چھائے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدّعا تیری زندگی کا
تو اک نفَس میں جہاں سے مِٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
غیر از | کے علاوہ / سِوا |
نمود | نمائش، ظہور |
مُدّعا | مطلب، مقصد |
اک نفس میں | فوراً، بہت جلد، ایک ہی سانس میں |
مِٹنا | ختم ہونا |
مثالِ شرار | چنگاری کی طرح |
تشریح و تبصرہ:
کچھ عرصہ زندہ رہنا اور پھر مر جانا، ‘نمود’ کہلاتا ہے۔ بنا کسی سوچ اور نظریے کے زندہ رہنا حیوانی زندگی ہے جو صرف خواہشات اور ضروریات کی تکمیل میں صَرف ہو۔ اکبر الہ آبادی نے اسی خیال کو خوبصورتی سے اس شعر میں بند کیا ہے:-
؎ ہم کیا کہیں کہ احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے، نوکر ہوئے، پنشن ملی، پھر مر گئے
لہذا اگر ایسی زندگی گزارنے کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہے تو ایک شعلے کی مانند تُو ایک سانس میں مر جائے گا۔ ایک سانس میں مر جانے سے مراد یہ ہے کہ جیسے ہی تو اپنا آخری سانس لے گا، اس دنیا سے محض ایک جسم کی طرح فنا ہو جائے گا اور تیری کوئی علمی و نظریّاتی میراث نہ ہوگی۔
جو شے انسان کو حیاتِ ابدی عطا کر سکتی ہے وہ عشقِ رسول ﷺ ہے۔ محض نمود، یعنی حیاتِ چند روزہ۔۔ یہ تو حیوانات کی زندگی کا مقصد ہے۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے اور پھر مسلمان تو خلیفۃ اللہ ہے۔
نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی
کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
ٹھکانہ | مقام، منزل |
کیفیّت | حالت، صورتِ حال |
ستم کشِ انتظار | انتظار کے ستم اُٹھانے والا |
تشریح و تبصرہ:
انتظارِ یار کی زحمت اُٹھانے سے مُراد یہ ہے کہ یہ جو اعلانیہ علامہ اقبال نے اپنے دل کی تبدیلی کا اظہار کیا ہے، جس کی کٹھن راہ پر درماندہ قافلے کو لے کر چلنے کا عظم کیا ہے، اس میں ان کو کئی ہم خیال درکار ہیں جو مل کر ایک بڑا قافلہ بنا سکیں، خواہ وہ قافلہ مورِ ناتواں کا ہو، دریا کی موجیں تب بھی پار کی جا سکتی ہیں۔
تبصرہ
یہ غزل اُس اِنقلاب کا پتا دے رہی ہے جو قیامِ یورپ کی بدولت اُن کی ذہنیّت میں پیدا ہو گیا تھا۔ ڈگریاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یورپ کی تہذیب کا مطالعہ بھی جاری رکھا۔ چنانچہ دو سال کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ:-
؏ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکُشی کرے گی
اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ تہذیب جس کی بنیاد مادہ پرستی ہو، انسانیّت کے حق میں موت ہے، چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اِس شعر کی صداقت دیکھ لی۔
اِس نظم سے اقبالؔ کی شاعری کا دوسرا دور ختم ہو جاتا ہے اور 1908ء سے وہ ایک مفکّرِ مِلّت یا حکیمِ اٗمّت کی حیثیّت سے ہمارے سامنے آتے ہیں، چنانچہ اُنہوں نے قرآن اور حدیث کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کے لیے ایک مکمّل پروگرام مرتّب کیا تاکہ مسلمانوں کا سفینہ، طوفان سے محفوظ رہ کر صحیح سلامت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
آداب جناب اس مصرعے میں “خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں” یا پھر خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں اصلاح فرمائیں کون سا درست ہے شکریہ
جی بہنا ”خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں“ ہی درست ہے۔