نظم ”فراق“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
اِس نظم میں علامہ اقبال نے فراق کی کیفیت بیان کی ہے۔ اس میں تخیل کی بلندی کے ساتھ ساتھ بلاغت اور فنِ شاعری کا کمال بھی نظر آتا ہے۔
(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”فراق“ کی تشریح
بند نمبر 1
تلاشِ گوشۂ عُزلت میں پھر رہا ہُوں مَیں
یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھُپا ہوں مَیں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
گوشۂ عُزلت | تنہائی کا گوشہ |
دامن | وادی |
تشریح:
محبوب کی جدائی نے مجھے سرگرداں بنا دیا ہے اور دُنیا کی دلچسپیوں سے بیزار ہو گیا ہوں۔ میری بے چینی اور اضطراب کا یہ عالم ہے کہ ایسے مقام کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں جہاں تنہائی میسر آ سکے۔ چنانچہ اسی تلاش کے سبب پہاڑ کے دامن میں گوشہ گیر ہو گیا ہوں۔
شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال
دُعائے طفلکِ گفتار آزما کی مثال
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شِکستہ گیت | ٹوٹے پھوٹے گیت |
دِلبری | خوب صورتی، رعنائی |
کمال | بہت زیادہ |
طِفل | بچہ |
گُفتار | بول چال، گفتگو، کلام |
مثال | مانند |
طفلگِ گُفتار آزما | چھوٹا بچہ جو ابھی بولنا سیکھ رہا ہو |
تشریح:
یہاں پہاڑی چشموں کی آوازوں میں، جو وقفوں کے بعد پیدا ہوتی ہیں، بڑی دِلکشی پائی جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بچہ اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں دُعا مانگ رہا ہے (چھوٹے بچے کی توتلی زبان بہت دلکش ہوتی ہے اور اُس کے پاس بیٹھے ہوؤں کے دل موہ لیتی ہے۔)
ہے تختِ لعلِ شفَق پر جلوسِ اخترِ شام
بہشتِ دیدۂ بینا ہے حُسنِ منظرِ شام
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تختِ لعلِ شفق | شفق کے لعل کا تخت، شفق کی سُرخی |
شفق | طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر چھانے والی سُرخی |
جلوس | مراد تخت پر بیٹھنا، جلوہپ افروز ہونا |
اختر | ستارہ |
بہشتِ دیدۂ بینا | حقیقت بیں آنکھ کی جنت، حقیقت بیں آنکھ کو لُبھانے والا منظر |
حُسنِ منظرِ شام | شام کے وقت کا منظر |
تشریح:
شام کا وقت ہے اور غروبِ آفتاب کے سبب جو شفق (طلوع اور غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر پھیلنے والی سُرخی) پھُوٹی ہے اس کے پس منظر میں شام کا ستارہ اپنی پناہ گاہ سے برآمد ہو رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ خوبصورت منطر بہِشت کے مناظر کی طرح حُسن و جمال سے ہم آہنگ ہے۔
سکُوتِ شامِ جُدائی ہُوا بہانہ مجھے
کسی کی یاد نے سِکھلا دیا ترانہ مجھے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سکُوت | خاموشی |
شامِ جدائی | محبوب سے دُوری کی شام |
ترانہ سِکھانا | گانا / گیت سِکھانا |
تشریح:
ہجر اور فرقت کی شام کی خاموشی میرے لیے بہانہ ثابت ہوئی اور محبوب کی یاد نے مجھے نغمے گانے پر مائل کر دیا۔
بند نمبر 2
یہ کیفیت ہے مری جانِ ناشکیبا کی
مری مثال ہے طفلِ صغیرِ تنہا کی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
کیفیت | حالت |
جانِ ناشکیبا | بے قرار و بے چین دِل، بے صبر دِل |
طفلِ صغیر | چھوٹا بچہ |
تشریح:
میری بے قرار جان کی حالت و کیفیت ایک ننھے مُنے بچے کی سی ہے جو تنہا بیٹھا ہو۔ اُس بچے پر عجب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ کبھی وہ رونے لگتا ہے اور کبھی خود ہی خاموش ہو جاتا یا مسکرانے لگتا ہے۔ (شاعر کا خود کو ایک بچے سے تشبیہ دینا اُس کی معصومیت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔)
اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز
صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سُرود | راگ گانا |
آغاز | شروع |
صدا | آواز |
تشریح:
وہ ننھا بچہ اندھیری رات میں گیت کا آغاز کرتا ہے‘ یعنی اپنی پیاری زبان بولنے لگتا ہے اور اپنی آواز کو اپنی آواز سمجھنے کی بجائے کسی دوسرے کی آواز سمجھتا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو فریب میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اُس کا کوئی غمگُسار اُس کے پاس موجود ہے جو اُسے لوری دے رہا ہے یا دِل بہلا رہا ہے۔ (ان دو شعروں میں اقبالؔ نے حقیقت شناسی کا کمال دِکھایا ہے۔)
یونہی میں دل کو پیامِ شکیب دیتا ہوں
شبِ فراق کو گویا فریب دیتا ہوں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
پیامِ شکیب | صبر کا پیغام، صبر کی تلقین |
شبِ فراق | جُدائی کی رات |
گویا | جیسے، جیسا کہ |
فریب | دھوکا |
تشریح:
میں بھی اُس چھوٹے بچے کی طرح اپنے دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور یوں نغمے گا گا کر اپنی شبِ فراق کو فریب دینے کی کوشش میں مصروف ہوں۔ گویا عاشق اور شبِ ہجر میں صبر و قرار سے رہے؟ یہ ناممکن ہے۔ لہذا دل کو مذکورہ پیام دینا شبِ فراق کو فریب دینے کی مانند ہے۔
محبوب سے جدائی اور فراق کی گھڑیاں ایک عاشق کے لیے اس قدر کرب آمیز ہوتی ہیں کہ تمام ہنگامہ ہاؤ کو ترک کر کے کوئی ایسا گوشۂ تنہائی تلاش کرتا ہے جہاں فراق کے اس کرب سے نجات حاصل ہو سکے۔ وہاں وہ اپنی دھُن میں اسی طرح ہجر و فراق کے نغمے گا کر خود کو اس طرح سے فریب دیتا ہے جیسے ننھا بچہ اپنی غوں غاں کو دوسروں کی آواز جان کر خوش ہوتا ہے
نسیم امروہوی فرہنگِ اقبالؔ میں لکھتے ہیں کہ اِس نظم میں وہی کیفیت ہے جو مومنؔ کے درج ذیل شعر میں ہے:-
؎ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
خوبصورت انداز ! جو لکھا گیا اور جو تشریح کی گئی ۔
جزاک اللہ خیر