”چاند اور تارے“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال نے نظم ”چاند اور تارے“ میں یہ نُکتہ واضح فرمایا ہے کہ زندگی محض سانس چلتی رہنے کا نام نہیں بلکہ اس سے عملِ پیہم اور سعی و کوشش مراد ہے۔ جو فرد یا قوم ان دونوں سے بیگانہ ہے، وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
اس نظم میں علامہ اقبال نے چاند اور ستاروں کے درمیان ایک مکالمے سے نہایت دِلکش انداز سے زندگی کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ زندگی سراپا عمل اور جد و جہد کا نام ہے۔ عملِ پیہم اور سعیِ مسلسل زندگی اور ترقی کے لوازم ہیں۔ عمل زندگی ہے اور سکون و قرار موت، لیکن عمل کی بنیاد عشق پر ہونی چاہیے (یہی وہ بنیاد ہے جس پر اقبال کے فلسفۂ خودی کی عمارت قائم ہے۔)
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
نظم ”چاند اور تارے“ کی تشریح
بند نمبر 1
ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
حلِ لغات:
دمِ سحر | صبح کی پھونک، صبح کا وقت |
قمر | چاند |
تشریح:
طلوعِ آفتاب کا وقت قریب پہنچ رہا تھا اور سحر کی پھونک (دمِ سحر) تاروں کی روشنی کی شمع کو گُل کر دینے والی تھی۔ ستارے اسی خدشے کو دِل میں لیے ہوئے چاند (قمر) سے یوں مخاطب ہوئے:
نظّارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
حلِ لغات:
نظّارے | وہ چیز جو دیکھی جائے، منظر جو دکھائی دے |
فلک | آسمان |
تشریح:
اے چاند! یہ تو بتا کہ ہم جو چمک چمک کر تھک چُکے ہیں، مگر اس کے باوجود آسمان کے نظاروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا، چلنا، مدام چلنا
حلِ لغات:
مُدام | ہمیشہ، دائم، متواتر، مسلسل، لگاتار |
تشریح:
ہمارا کام صبح و شام سفر میں رہنا ہے۔ چلنا، چلنا اور مسلسل چلتے رہنا ہے۔ (تارے ہمیشہ گردِش میں رہتے ہیں، اس لیے ایسا کہا ہے)
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکُوں، نہیں ہے
حلِ لغات:
بے تاب | متحرّک، بے چین، مضطرب، بے قرار |
تشریح:
اے چاند! اِتنا بتا دے کہ اِس عالمِ رنگ و بُو کی ہر شے تغیّر سے کیوں دو چار ہے؟ اِن کے اضطراب (بے چینی و بے قراری) میں کمی کیوں نہیں آتی؟ آخر کیوں انہیں سکون حاصل نہیں ہوتا؟
رہتے ہیں ستم کشِ سفر سب
تارے، انساں، شجر، حجر سب
حلِ لغات:
ستم کشِ سفر | سفر کی سختیاں سہنے والے، سفر کی مصیبتیں برداشت کرنے والے |
شجر | درخت |
حجر | پتھر |
تشریح:
یہاں سب سفر کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔ تارے ہوں یا انسان، درخت ہوں یا پتھر، کوئی بھی اِن سختیوں سے بچا ہوا نہیں۔
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا
حلِ لغات:
منزل | مقامِ مقصود، ٹھہرنے کی جگہ، پڑاؤ۔ کسی کام کے سلسلے کا کوئی نقطہ، مرحلہ، موقع، اہم کام |
تشریح:
آخر اتنا تو ہمیں پتہ چلے کہ یہ سفر کبھی اور کسی مرحلے پر جا کر ختم بھی ہوگا اور کبھی ہم اپنی منزلِ مقصود کو بھی دیکھ سکیں گے یا نہیں! مراد یہ ہے کہ ستاروں کے الفاظ میں اِس کائنات کی ہر شے تغیّر پذیر ہے، کسی کو بھی سکون حاصل نہیں! سفر جاری ہے اور منزل ناپید!
بند نمبر 2
کہنے لگا چاند، ہم نشینو
اے مزرعِ شب کے خوشہ چینو!
حلِ لغات:
ہم نشینو | ہم نشین، ساتھیو، دوستو |
مزرعِ شب | رات کی کھیتی، مُراد رات |
خوشہ چین | پھل / داننے چُننے والے، خوشے چُننے والے |
تشریح:
اب علامہ اقبال چاند کی زبان سے ستاروں کے سوال کا جواب دیتے ہیں:
چاند، جو بڑی خاموشی سے اُن ستاروں کی باتیں سُن رہا تھا، یوں گویا ہوا کہ اے ہم نشینو! اے رات کی فصل سے خوشے چُننے والو! میری بات غور سے سنو!
جُنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
حلِ لغات:
جُنبش | حرکت |
رسم | دستور، قاعدہ، طور طریقہ |
قدیم | پرانی |
تشریح:
حرکت و گردِش ہی کی بدولت اس کائنات کی زندگی کا کاروبار چل رہا ہے اور یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ یہ انداز اور طور طریقہ تو ازل سے چلا آ رہا ہے۔
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
حلِ لغات:
اشہبِ زمانہ | زمانے / وقت کا گھوڑا |
طلب | خواہش، آرزو |
تازیانہ | چابک، کوڑا |
تشریح:
زمانے کا گھوڑا (اشہب) طلب و خواہش کا کوڑا کھا کھا کر ہی دوڑتا ہے۔ گویا اعلیٰ مقصد اور اس کے حصول کے لیے مسلسل جہد و عمل میں مصروف رہنا ہی حقیقی زندگی ہے، اس کے بغیر زندگی کی کوئی حیثیت و حقیقت نہیں۔
؎ جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات، کشمکشِ انقلاب!
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
حلِ لغات:
بے محل | بے موقع، غیر مناسب |
قرار | ٹھہرنا |
اجل | موت |
تشریح:
اِس راستے میں ٹھہرنے یا منزل / پڑاؤ کا سوچنا بھی ایک بے موقع بات ہے، اس لیے کہ قرار میں موت پوشیدہ ہے۔ جوکوئی انسان اپنی زندگی کو حقیقی اور با مقصد زندگی بنانے کے لیے جہد و عمل نہیں کرتا اور جمود ہی کا شکار رہتا ہے یا سکون و قرار ہی کو زندگی سمجھتا ہے، وہ در حقیقت ایک چلتی پھرتی لاش کے سِوا اور کُچھ نہیں ہے۔
چلنے والے نِکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کُچل گئے ہیں
حلِ لغات:
چلنے والے | حرکت میں رہنے والے |
کُچل جانا | پِس جانا، مسلے جانا |
تشریح:
مسلسل جہد و عمل کرنے والے آگے بڑے گئے ہیں، وہ صاحبِ بقا بن گئے ہیں۔ اس کے برعکس رُکنے والے یعنی سعی و عمل سے بیگانہ انسان کُچلے گئے ہیں، اُن کا وجود بے حقیقت و حیثیت ہو کر رہ گیا۔
واضح ہو کہ علامہ اقبال کے کلام میں عمل پر بہت زور دیا گیا ہے۔
انجام ہے اس خرام کا حُسن
آغاز ہے عشق، انتہا حُسن
حلِ لغات:
انجام | نتیجہ |
خرام | ٹہلنا، چلنا، رفتار، حرکت |
آغاز | شروعات |
انتہا | اخیر، انجام |
تشریح:
اِس خرام (جہد و عملِ پیہم) کا انجام حُسن ہے۔ اِس کا آغاز تو عشق ہے اور انتہا حُسن ہے۔ عشق سے مُراد ہے تلاش و جستجو اور جد و جہد کا سچّا ذوق۔ حُسن سے مراد ہے درجۂ کمال حاصل کر لینا۔ اس نظم میں حرکت اور جد و جہد کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی تعلیم کے لیے اقبالؔ نے اپنی زندگی وقف کی۔ یہاں اس دعوت کی ابتدائی جھلک ملتی ہے، جس کے جلووں سے اقبالؔ کا سارا کلام لبریز ہے۔
جد و جہد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر کمال (حُسن) پیدا ہوتا ہے۔ پس جو شخص مرتبۂ کمال (حُسن) پیدا کرنا چاہتا ہے، اُسے لازم ہے کہ اپنے نصب العین سے عشق اختیار کرے۔ عشق انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔
چنانچہ حرکت اور روانی ہی ہر شے کو سنوارتی ہے۔ اسی عمل کو حُسن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی جملہ اشیاء عشق کی بدولت حرکت میں رہتی ہیں اور آخر میں سنوَر کر حُسن کا رُوپ دھار لیتی ہیں۔
تبصرہ
بظاہر یہ بہت آسان نظم ہے لیکن اس میں علامہ اقبال نے رمز و کنایہ کے پردے میں اپنا فلسفہ بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی سراپا عمل ہے اور جد و جہد کا نام ہے۔ عملِ پیہم اور سعیِ مسلسل، یہ زندگی اور ترقی کے لوازم ہیں۔
عمل، زندگی ہے اور سکون، موت ہے یعنی جو قومیں مصروفِ عمل ہیں وہ ترقی کرتی ہیں اور جو قومیں بے عمل ہیں وہ فنا ہو جاتی ہیں۔ جب کوئی قوم جد و جہد اور عمل سے بیگانہ ہو جاتی ہے تو وہ دوسری قوم کی غلام ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے عملی سے اجتماعی احساس فنا ہو جاتا ہے اور جب یہ جوہر فنا ہو جاتا ہے تو ہر فرد مِلّت کی بقا سے غافل ہو کر اپنی انفرادی بقا کے لیے کوشش کرتا ہے اور وہ اس حقیقت سے بیگانہ ہو جاتا ہے کہ:
؏ فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے، تنہا کُچھ نہیں
(حوالہ: بانگِ درا: شمع اور شاعر)
اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر فرد اپنی جگہ فنا ہو جاتا ہے یعنی قوم کی ہستی کا چراغ گُل ہو جاتا ہے۔ ہندی مسلمانوں کی گذشتہ تاریخ اس تلخ حقیقت پر شاہد ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے جہاد اور عملِ صالح کو کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ چونکہ اقبال کا فلسفہ جس کو فلسفۂ خودی یا فلسفۂ عمل یا فلسفۂ فقر کہتے ہیں، سراسر قرآن حکیم سے ماخوذ ہے۔ اِس لیے اُن کے یہاں بانگِ درا سے ارمغانِ حجاز تک، ہر کتاب میں جہاد اور عمل ہی کا پیغام نظر آتا ہے۔ اِس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی حرکت (عمل) پر موقوف ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر