”صبح کا ستارہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
بند نمبر 1
لُطفِ ہمسایگیِ شمس و قمر کو چھوڑوں
اور اس خدمتِ پیغامِ سحَر کو چھوڑوں
یہ نظم اقبالؔ کی قوّتِ تخیّل کا کرشمہ ہے۔ مقصد اس نظم سے یہ ہے کہ اگر کسی کو حیاتِ ابدی کی آرزو ہو تو اپنے اندر عشق کا سوز پیدا کرے۔ اس حقیقت کو اُنہوں نے صبح کے ستارہ کی زبان سے ادا کیا ہے۔ صبح کا ستارہ کہتا ہے کہ:-
اب تو یہ جی چاہتا ہے کہ مجھے سورج (شمس) اور چاند (قمر) کی ہمسائیگی میں جو لطف آتا ہے، اسے چھوڑ دوں اور اپنے طلوع ہونے سے آمدِ صبح کا جو پیغام (خدمتِ پیغامِ سحر) دیتا ہوں، اس ذمہ داری سے بھی جان چھُڑا لوں۔ صبح کا ستارہ ایسا کیوں چاہتا ہے، اس بات کا جواب اگلے اشعار میں ہے۔
میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھّی
اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھّی
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آسمان میں جو ستاروں کی بستی قائم ہے، میرے لیے اس بستی میں رہائش کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ یہ جو بلندی مجھے حاصل ہے، اس کی نسبت زمین کی پستی میرے لیے زیادہ مناسب ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کا جواب آئندہ اشعار میں۔
آسماں کیا، عدم آباد وطن ہے میرا
صبح کا دامنِ صد چاک کفن ہے میرا
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میں آسمان کا باشندہ ہوں، لیکن اصل میں میرا وطن آسمان نہیں بلکہ عدم آباد ہے (عدم سے مراد ہے فنا / نہ ہونا)، یعنی وہ جہان جہاں موت کے بعد مرنے والے پہنچتے ہیں۔ صبح کا سینکڑوں جگہ سے پھٹا ہوا لباس میرا کفن ہے، یعنی صبح ہوتی ہے تو میری زندگی تمام ہو جاتی ہے۔ پَو پھٹنے کو شاعر عام طور پر صبح کا دامن چاک ہو جانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ صبح کے وقت افق پر سفیدی چھا جاتی ہے، اس لیے اسے کفن سے تشبیہ دی۔
میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا
ساقیِ موت کے ہاتھوں سے صبُوحی پینا
میرے مقدر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ میں ہر روز جیتا اور مرتا رہوں اور موت کے ساقی کے ہاتھوں صبح کی شراب (صبوحی: وہ شراب جو صبح کے وقت پی جاتی ہے) پیتا رہوں یعنی اِدھر طلوع ہوا اُدھر جلد ہی غروب ہو گیا۔
نہ یہ خدمت، نہ یہ عزّت، نہ یہ رفعت اچھّی
اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظُلمت اچھّی
اس صورتِ حال کے باعث نہ تو وہ خدمت مناسب ہے جو میرے سپرد کی گئی ہے (یعنی صبح کا پیغام دینا) اور نہ وہ عزت بہتر ہے جو مجھے حاصل ہے اور نہ آسمان کی بلندی پر رہنا میرے لیے مفید ہے بلکہ اس تھوڑی سی دیر کے چمکنے سے تو میرے لیے تاریکی ہی اچھی ہے۔ اس نوع کی ذمہ داری، عزت اور بلندی آخر کس کام کی، کہ تھوڑی دیر چمک کر اپنے وجود سے آشنا کرایا اور پھر صبح ہونے پر موت کی نیند سو گیا۔
میری قُدرت میں جو ہوتا تو نہ اختر بنتا
قعرِ دریا میں چمکتا ہُوا گوہر بنتا
اگر میرے بس میں ہوتا تو میں کبھی ستارہ (اختر) نہ بنتا بلکہ سمندر کی تہ میں ایک چمکتا ہوا موتی (گوہر) بن کر رہنا زیادہ مناسب سمجھتا، اس لیے کہ اسے کچھ تو بقا ہے۔
بند نمبر 2
واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا
چھوڑ کر بحر کہیں زیبِ گلُو ہو جاتا
(موتی بننے کی صورت میں) سمندر کی لہروں کی کھینچا تانی کی وجہ سے اگر میرا دِل گھبراتا تو میں سمندر چھوڑ کر کسی کے گلے کے ہار کی زینت بن جاتا۔ کوئی حسینہ مجھے اپنے گلے میں لٹکا لیتی اور اس طرح میں اس کی دلکشی میں اضافے کا باعث بنتا۔
ہے چمکنے میں مزا حُسن کا زیور بن کر
زینتِ تاجِ سرِ بانوئے قیصر بن کر
اس لیے کہ آسمان کی بلندی پر چمکنے میں وہ لطف نہیں جو کسی حسین کے زیور کی چمک بن کر حاصل ہوتا ہے یا کسی شہنشاہ کی ملکہ کے تاج کی آرائش بننے میں ممکن ہے۔
ایک پتھّر کے جو ٹکڑے کا نصیبا جاگا
خاتمِ دستِ سلیماں کا نگیں بن کے رہا
دیکھیے کہ وہ جو دیکھنے میں ایک معمولی سا پتھر تھا، لیکن جب اس کا نصیب جاگا تو حضرت سلیمانؑ کی انگوٹھی (خاتم) کا نگینہ بن گیا۔
ایسی چنروں کا مگر دہر میں ہے کام شکست
ہے گُہر ہائے گراں مایہ کا انجام شکست
لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کی اشیاء آخرکار دنیا میں شکست و ریخت سے دوچار ہو کر رہتی ہیں۔ چنانچہ بیش قیمت اور نایاب قسم کے موتی (گہرہائے گرا نمایا: قیمتی جواہرات) کا انجام بھی بالآخر ریزہ ریزہ ہوجانا ہوتا ہے۔
زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل
اس طرح دیکھا جائے تو اصل زندگی تو وہ ہے جو موت سے واقف نہ ہو، یعنی جسے موت نہ آئے۔ ایسا جینا کیا جینا ہے جس کی لازمی شرط موت قرار پاتی ہو (واضح رہے کہ ستارہ ایسی زندگی کا طالب ہے جو ہمیشہ قائم رہے)
ہے یہ انجام اگر زینتِ عالم ہو کر
کیوں نہ گر جاؤں کسی پھول پہ شبنم ہو کر!
اگر دنیا کی زینت بن کر (موتی کی صورت میں کسی کے تاج وغیرہ کی زینت) بھی اسی انجام سے دوچار ہونا ہے تو کیا پھر میرے لیے یہ بہتر نہ ہوگا کہ شبنم بن کر کسی پھول پر ہی ٹپک پڑوں۔ کم از کم میری وجہ سے پھول تو کھِل کر ماحول کو خوشبودار کر دے گا۔
بند نمبر 3
کسی پیشانی کے افشاں کے ستاروں میں رہوں
کس مظلوم کی آہوں کے شراروں میں رہوں
زیادہ اچھی بات تو یہ ہے کہ میں کسی خاتون کے ماتھے کی افشاں (طلائی یا نقرئی اوراق کے ریزے جو ماتھے کی خوبصورتی کے لئے خواتین (بالخصوص دلہنیں) چھڑکتی یا جماتی ہیں۔) میں شامل ہو کر اُس کے حسن کو دوبالا کرنے کے کام آؤں یا پھر کسی مظلوم اور مجبور انسان کی آہ و زاری سے کی چنگاریوں میں بس جاؤں۔ (آہ و زاری کو چنگاری اس لیے کہا کہ آہ و زاری کا تعلق سینے کے ساتھ ہے، جب ہم غمگین ہوتے ہیں تو ہمارے سینے میں موجود دِل سُلگتا ہوا معلوم ہوتا ہے، اسی کو آہ و زاری کی چنگاریاں کہا)
اشک بن کر سرِمژگاں سے اٹک جاؤں میں
کیوں نہ اُس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جاؤں میں
یا میں آنسو بن جاؤں اور پلکوں کے کناروں پر اٹک جاؤں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میں آنسو بن کر اس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک پڑوں کہ۔۔۔
جس کا شوہر ہو رواں ہو کے زرہ میں مستور
سُوئے میدان وغا، حُبِّ وطن سے مجبور
(کیوں نہ میں آنسو بن جاؤں اور اس بیوی کی آنکھوں سے کر ٹپک پڑوں کہ) جس کا شوہر وطن کی محبت سے سرشار ہو کر زرہ بکتر پہنے میدانِ جنگ کی طرف رواں ہو رہا ہو۔
یاس و اُمیّد کا نظّارہ جو دِکھلاتی ہو
جس کی خاموشی سے تقریر بھی شرماتی ہو
ایسی بیوی جس میں مایوسی اور امید دونوں صورتیں دکھائی دیتی ہوں اور جس کی خاموشی سے گفتگو بھی شرماتی ہو۔ مایوسی اس بات کی کہ شاید میرا شوہر زندہ واپش نہیں آئے گا اور امید اس بات کی کہ شاید وہ غازی بن کر واپس لوٹے۔ اس کی خاموشی کچھ اس انداز کی ہو کہ دیکھنے والے کو اس کے دردِ دِل کا صاف پتا چل جائے، جبکہ اس کے الفاظ اس کی کیفیت کو بیان کرنے سے عاجز ہوں۔
جس کو شوہر کی رضا تابِ شکیبائی دے
اور نگاہوں کو حیا طاقتِ گویائی دے
جس (بیوی) کو اپنے شوہر کی رضا پر راضی رہنے کے باعث صبر و شکیبائی کی قوت حاصل ہو اور اس کی حیا اس کی نگاہوں کو بولنے کی طاقت دے، وہ سراپا ”سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے“ کی عملی تعبیر ہو اور حیا کی وجہ سے اس کی نگاہوں ہی سے اس کی دِلی حالت کا پتا چل جائے۔
زرد، رُخصت کی گھڑی، عارضِ گُلگوں ہو جائے
کششِ حُسن غمِ ہجر سے افزوں ہو جائے
جب اس کا شوہر میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہونے لگے تو اس کا پھولوں جیسا سرخ چہرہ غم کے باعث زرد ہو جائے اور اس کے حسن میں جو دِلکشی ہے، اس میں شوہر کے ہجر (جدائی) کی وجہ سے اور بھی اضافہ ہو جائے۔
لاکھ وہ ضبط کرے پر میں ٹپک ہی جاؤں
ساغرِ دیدۂ پُرنم سے چھلک ہی جاؤں
وہ (بیوی) لاکھ ضبط کرنے کی کوشش کرے لیکن میں (صبح کا ستارہ جو آنسو بننے کا خواہشمند ہے) اس کی آنکھوں سے ٹپک ہی جاؤں اور اس کے آنسوؤں سے بھرے ہوئے ساغر (پیالہ) سے چھلک ہی جاؤں۔
خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جاؤں
عشق کا سوز زمانے کو دِکھاتا جاؤں
یوں میں (مذکورہ آنسو چھلکنے کے بعد) خاک میں مل کر حیاتِ ابدی (ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی) پا جاؤں اور اس طرح زمانے کو سوزِ عشق دکھاتا جاؤں۔ گویا عشق کا جذبہ ہی حیاتِ ابدی کا باعث بنتا ہے۔
؎ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اُس پر حرام
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)
تبصرہ
صبح کے ستارے نے زندگی کی ناپائیداری دیکھتے ہوئے پہلے آسمان سے اتر کر سمندر کی تہہ میں موتی بننا چاہا، پھر سوچا کہ موتی بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ جینا وہی اچھا ہے جس میں موت کا کوئی کھٹکا نہ ہو۔ اس پر خیال آیا کہ شبنم بن جانا چاہیے۔ پھر مظلوم کی آہوں کا شرارہ بن جانا چاہا وغیرہ۔ سب سے آخر میں اس بیوی کا آنسو بننا پسند کیا جس کا شوہر وطن کے لیے جنگ میں جائے۔ اس کی آنکھوں سے گِر کر مٹی میں مل جانا منظور کر لیا اور اس کو دائمی زندگی سمجھا، اس لیے کہ زمانہ اس سے سچی محبت کا سبق لے گا۔ سبق یہ ہے کہ شوہر سے اگرچہ وہ سب سے بڑھ کر محبت کرتی ہے لیکن وطن کی حفاظت میں جنگ سے نہیں روکتی۔ جدائی اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہے لیکن وطن کی محبت میں اسے صبر کے ساتھ قبول کر لیتی ہے۔ جو آنسو ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑتا ہے، وہ زمانے کے لیے شوہر کی محبت اور وطن کی محبت کا زندہ پیغام ہے۔
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)