”نالۂ فراق“ از علامہ اقبال
فہرست
نظم ”نالۂ فراق“ کا تعارف
نالۂ فراق پانچ بند پر مشتمل نظم ہے۔ یہ نظم علامہ اقبال نے اپنے استاد پروفیسر ٹامس آرنلڈ کی یاد میں اس وقت لکھی جب وہ 1904ء میں گورنمنٹ کالج کی ملازمت ترک کرکے واپس انگلستان چلے گئے۔ وہ 1897ء سے اس کالج میں فلسفے کے استاد تھے۔ لاہور آنے سے قبل پروفیسر ٹامس آرنلڈ علی گڑھ کالج میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے، جہاں بے شمار طلباء کے علاوہ شبلی نعمانی نے بھی ان سے استعفادہ کیا۔ واضح رہے کہ علامہ شبلی بھی بحیثیتِ استاد اس کالج سے وابستہ تھے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)
بانگِ درا کی نظم نالۂ فراق میں علامہ نے اپنے فلسفہ کے استاد ڈاکٹر آرنلڈ کی یاد میں اپنے احساسات نظم کیے ہیں۔ یہ نظم ماہنامہ مخزن، 1904ء میں چھپی تھی۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
جیسا کہ نظم کے عنوان سے ظاہر ہے، نالۂ فراق علامہ اقبال نے اپنے استاد پروفیسر ٹی ڈنلیو آرنلڈ کی یاد میں اس وقت لکھی تھی جب وہ 1904ء میں لاہور سے انگلستان چلے گئے تھے۔ پروفیسر ٹامس آرنلڈ پہلے علی گڑھ کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے جہاں اور بہت سے طالب علموں کے علاوہ مولانا شبلی نعمانی نے بھی (جو خود ولی گڑھ میں استاد تھے) ان سے استعفادہ کیا۔ 1897ء میں ٹامس آرنلڈ علی گڑھ کالج سے گورنمنٹ کلاج لاہور آ گئے اور یہاں پر اوائل 1904ء تک فلسفہ پڑھاتے رہے۔ 1904ء میں انگلستان گئے تو انڈیا آفس لائبریری کے لائبریرین مقرر ہوئے۔ بعد میں لندن سکول آف اورینٹیل سٹڈیز میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ان کا انتقال 1930ء میں ہوا۔ پروفیسر ٹامس آرنلڈ نے یوں تو بہت سی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں لیکن Preaching of Islam زیادہ معروف ہے، جس کا ترجمہ اردو میں بھی ہو چکا ہے۔ علامہ اقبال پروفیسر ٹامس آرنلڈ سے بہت متاثر تھے۔ سر عبدالقادر کے مطابق انہی کے مشورے پر علامہ اقبال نے شعر گوئی ترک کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی۔
نالۂ فراق مئی 1904ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ نظرِ ثانی میں تین بند قلمزد کر دیے گئے جو باقیاتِ اقبال اور سرودِ رفتہ دونوں میں شامل ہیں۔
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)
نظم نالۂ فراق علامہ اقبال نے اپنے استاد ڈاکٹر ٹی ڈبلیو آرنلڈ (سی آئی ایم اے – ڈی لٹ) کی یاد میں 1904ء میں لکھی تھی۔ جس طرح شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم نے ان کے اندر فارسی ادب اور شعر و سُخن کا ذوق پیدا کیا، اسی طرح ڈاکٹر آرنلڈ نے ان کو فلسفہ اور حکمت کا شیدائی بنایا۔ حضرت علامہ نے اپنے استاد کو ”کلیمِ ذروۂ سینائے علم“ کے شاندار لقب سے یاد کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آرنلڈ بجا طور پر اس لقب کے مستحق تھے۔ افسوس کہ میں اس مختصر تبصرہ میں ڈاکٹر آرنلڈ کے کمالاتِ علمی کی تفصیل بیان نہیں کر سکتا، صرف چند واقعات بیان کرنے پر اکتفادہ کرتا ہوں۔
ڈاکٹر آرنلڈ 1887ء کے قریب علی گڑھ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہو کر آئے تھے۔ چونکہ وہ عربی کا ذوق رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے مولانا شبلی نعمانی مرحوم سے (جو اس زمانہ میں وہاں عربی اور فارسی کے پروفیسر تھے) عربی ادب کی بعض اونچی کتابیں پڑھی تھیں اور مولانا نے ان سے فرنچ سیکھی تھی۔ 1895ء میں انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب Preaching of Islam شائع کی، جو کو انہوں نے بیس سال کی مدت میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ اور اس میں تاریخی شواہد کی بنا پر یہ ثابت کیا تھا کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی خوبیوں کی بدولت پھیلا ہے۔ انگریزی ادب ہیں نہیں بلکہ سارے مغربی ادب میں یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔ اس موضوع پر دوسری کتاب نہ اس سے پہلے کسی نے لکھی، نہ بعد میں۔ جب سر سید مرحوم نے اس کتاب کو دیکھا تو کہا کہ یہ کام ہمیں کرنا چاہیے تھا، جو ایک غیر مسلم نے کیا ہے اور اسی وقت مسٹر عنایت اللہ صاحب دہلوی کو، جنہوں نے اسی زمانہ میں عربی میں بی-اے کیا تھا، اس کتاب کے ترجمہ پر معمور کر دیا۔ چناچنہ 1896ء میں اس کا ترجمہ ”دعوتِ اسلام“ کے نام سے شائع ہوا۔
غالباً 1897ء میں آرنلڈ علی گڑھ سے لاہور میں آئے اور یہاں حضرت علامہ کو ان کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا۔ 1901ء میں ڈاکٹر آرنلڈ نے تفسیرِ کبیر کی ضخیم آٹھ جلدوں کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اقتباسات ایک کتاب جو امام رازی نے معتزلی حکماء کی تفسیر سے اپنی تفسیر میں جا بجا درج کیے ہیں۔ 1904ء کے شروع میں ڈاکٹر آرنلڈ ولایت واپس چلے گئے اور انڈیا آفس میں لائبریرین مقرر ہو گئے۔ 1920ء میں لندن یونیورسٹی آف اورینٹیل سٹڈیز میں عربی کے پروفیسر مقرر ہو گئے اور 1930ء میں وفات پائی۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نالۂ فراق اقبالؔ نے اپنے استاد ڈاکٹر آرنلڈ کی یاد میں لکھی تھی۔ ڈاکٹر آرنلڈ پہلے علی گڑھ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے تھے، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں آ گئے۔ اقبالؔ 1895ء میں سیالکوٹ سے ایف-اے پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تھے۔ غالباً بی-اے اور ایم-اے میں ڈاکٹر موصوف ہی سے فلسفہ پڑھا تھا۔ ایم-اے پاس کرنے کے بعد بھی شفیق استاد سے ان کے گہرے تعلقات قائم رہے۔ 1904ء کے آغاز میں ڈاکٹر آرنلڈ ولایت واپس چلے گئے اور انڈیا آفس کے کتب خانہ میں لائبریرین مقرر ہوئے۔ پھر وہ لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹیل سٹڈیز میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1930ء میں وفات پائی۔
Preaching of Islam ان کی نہایت مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے تاریخی شہادتوں کی بنا پر یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے نہیں، بلکہ اپنی خوبیوں کی بدولت پھیلا ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر موصوف نے بیس سال کی محنت کے بعد لکھی۔ اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاہ ڈاکٹر موصوف نے امام رازی کی تفسیر سے وہ تمام اقتباسات ایک کتاب کی صورت میں مرتّب کیے ہیں جو معتزلہ کی تفسیروں سے امام رازی نے درج کیے تھے۔ اقبالؔ کو ان سے جو عقیدت تھی وہ اس نظم کے لفظ لفظ سے ٹپک رہی ہے۔
نظم نالۂ فراق 1904ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی اور اِس کے آٹھ بند تھے۔ نظر ثانی میں تین بند حذف کر دیے گئے۔ اس نظم کے ساتھ اقبالؔ نے اپنے قلم کے ساتھ جو نوٹ شائع کرایا تھا، درج ہے:-
”استاذی قبلہ مسٹر آرنلڈ کے ولایت تشریف لے جانے کے بعد ان کی جدائی نے اقبالؔ کے دل پر کچھ اس قسم کو اثر کیا کہ کئی دنوں تک سکینتِ قلبی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ایک روز زورِ تخیّل نے ان کے مکان کے سامنے لا کھڑا کر دیا اور نالۂ فراق کے یہ چند اشعار زبان پر آ گئے جن کی اشاعت پر احباب مجبور کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی رخصت کے موقع پر بہت سے الوداعی جلسے کیے گئے تھے اور ان میں بہت سی نظمیں پڑھی گئیں اور یہ نظم اس وقت لکھی بھی جا چکی تھی، تاہم اس خیال سے کہ اس میں میرے ذاتی تاچرات کا ایک درد آمیز اظہار تھا، کسی عام جلسے میں پڑھنا مناسب نہ سمجھا گیا۔ آپ کی تشریف بری کے بعد دِلی تاثرات کی شدّت اور بھی بڑھ گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِس نظم میں بہت سی تبدیلی ہو گئی۔“
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)
بند نمبر 1
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں
استاذی قبلہ مسٹر آرنلڈ کے ولایت تشریف لے جانے کے بعد ان کی جدائی نے اقبالؔ کے دل پر کچھ اس قسم کا اثر کیا کہ کئی دنوں تک سکینتِ قلبی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ایک روز زورِ تخیّل نے ان کے مکان کے سامنے لا کھڑا کر دیا اور اس نظم کے اشعار زبان پر آ گئے۔
نالۂ فراق کے پہلے شعر میں علامہ اقبال پروفیسر آرنلڈ کی رہائش گاہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے مکان! تیرا مکین (رہائشی) آخر یورپ (مغرب) میں جا کر آباد ہو گیا۔ آہ! کہ اُسے مشرق کی سرزمین پسند نہ آئی یعنی اُس نے یہاں رہنا قبول نہ کیا۔ واضح ہو کہ آرنلڈ 1904ء کے آغاز میں واپس یورپ چلے گئے تھے۔ (واضح رہے کہ بیک گراؤنڈ میں موجود تصویر پروفیسر آرنلڈ کا مکان نہیں ہے، بلکہ اسے صرف بیک گراؤنڈ کے لیے استعمال کیا گیا ہے)
آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں
ظُلمتِ شب سے ضیائے روزِ فرقت کم نہیں
پروفیسر آرنلڈ کے جانے کے بعد مجھے اس حقیقت (صداقت) پر ایمان لانا پڑا کہ جدائی کے دِن کی روشنی (ضیائے روزِ فرقت) رات کے اندھیرے (ظلمتِ شب) سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی۔ پروفیسر آرنلڈ کی جدائی نے مجھے اس سچائی کا قائل کر دیا۔ گویا ان کے جانے کے بعد مجھ کو روزِ روشن بھی رات کی طرح تاریک نظر آتا ہے۔ جس طرح رات کی تاریکی میں انسان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا، اسی طرح اپنے عظیم استاذ سے جدائی (فرقت) کے لمحات میں دِل و دماغ مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔
”تا ز آغوشِ وداعش داغِ حیرت چیدہ است
ہمچو شمعِ کُشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است“
بند کے آخر میں علامہ اقبال نے مرزا عبدالقادر بیدل کا ایک شعر تضمین کیا ہے۔
جب سے میری نگاہ نے محبوب کی آغوشِ وداع سے حیرانی کے داغ چنے ہیں، وہ (میری نظر) آنکھ میں بجھی ہوئی شمع کی طرح سو گئی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب حضرت استاد ولایت تشریف لے گئے اور مجھ پر بے اندازہ حیرانی طاری ہوئی، میری نظر آنکھ میں اسی طرح سو گئی، جیسے بجھی ہوئی شمع سو جاتی ہے۔ یعنی نظر نے کچھ اور گوارا نہ کیا۔ حیرانی کا خاصہ ہی یہ ہے کہ نگاہ میں دیکھنے کی قوت باقی نہ رہے۔
بند نمبر 2
کُشتۂ عُزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں
شہر سے سودا کی شدّت میں نکل جاتا ہوں میں
جب سے وہ محبوب مجھ سے رخصت ہوا ہے میں نے گوشۂ تنہائی اختیار کر لیا ہے، کسی سے ملنے کو جی نہیں چاہتا۔ میں تنہائی (عُزلت) کو پسند کرتا ہوں اور شہر کی آبادیوں سے میرا دِل گھبرانے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنون و دیوانگی (سودا) کا زور بڑھتا ہے تو میں شہر سے نکل کر ویرانے میں پہنچ جاتا ہوں۔
یادِ ایّامِ سلَف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں
بہرِ تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں
ایسے میں میرا دِل پروفیسر آرنلڈ کے ساتھ گزرے ہوئے دِنوں کو یاد کر کے تڑپتا ہے، مجھے وہ دِن یاد آتے ہیں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر صاحب کے نورِ علم سے فیضیاب ہوا کرتا تھا۔ بیتے دِنوں کی یاد میرے دِل کو بے قرار کر دیتی ہے اور اے پروفیسر آرنلڈ کے مکان! میں سکون حاصل کرنے کے لیے تیری طرف دوڑتا چلا آتا ہوں۔
آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے
اجنبیّت ہے مگر پیدا مری رفتار سے
اے مکان! گو تیرے در و دیوار سے میری آنکھ مانوس اور واقف ہے، لیکن میری چلنے کے انداز سے اجنبیت اور نا واقفیت ظاہر ہو رہی ہے۔ آنکھوں کو اُنس اس لیے ہے کہ پروفیسر آرنلڈ کے زمانۂ قیام میں مَیں وہاں جاتا رہا اور اجنبیت اس لیے ہے کہ اُنس تو صرف پروفیسر آرنلڈ کی وجہ سے تھا۔ اُن کے جانے کے بعد تو یہ مکان میرے لیے اجنبی ہو چکا ہے۔
بند نمبر 3
ذرّہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا
آئنہ ٹُوٹا ہُوا عالم نما ہونے کو تھا
اگر میرے دِل کو ایک ذرۂ ناچیز قرار دیا جائے تو وہ پروفیسر آرنلڈ کے فیضانِ صحبت سے سورج کی طرح منور و عظیم ہونے والا تھا (میرا دِل نورِ علم سے منور ہونے والا تھا)۔ اگر میرے دِل کو ٹوٹا ہوا آئینہ کہا جائے تو پروفیسر صاحب کی مسلسل توجہ کے باعث یہ ٹوٹا ہوا آئینہ ایسی صلاحیت پیدا کرنے والا تھا جس کے بعد یہ ساری دنیا کی تصویر پیش کر سکتا تھا۔
نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا
آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا
میری خواہشوں کا سوکھا ہوا پودا سرسبز و شاداب ہونے کو تھا۔ میری آرزو تھی کہ میں علم و حکمت کے مراتب میں ترقی حاصل کروں۔ علامہ اقبال اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی کو کیا معلوم کہ میں کس قدر ادنیٰ مقام سے ترقی کر کے کتنے اعلی مرتبے پر پہنچنے والا تھا۔ پروفیسر آرنلڈ جیسے عظہم استاذ کی صحبت اور توجہ کی وجہ سے مجھ میں علم و حکمت کے سلسلے میں بڑی عظیم تبدیلی آنے والی تھی لیکن افسوس کہ پروفیسر صاحب میرا وطن ہی چھوڑ گئے اور یوں یہ سلسلہ رُک گیا۔
ابرِ رحمت دامن از گُلزارِ من برچید و رفت
اندکے بر غنچہ ہائے آرزُو بارید و رفت
رحمت کا بادل میرے باغ سے دامن کھینچ کر چلا گیا۔ وہ تھوڑی دیر تمناؤں کی کلیوں پر برسا، پھر چل دیا۔اس شعر میں پروفیسر صاحب کے فیضانِ عام کے باعث اُنہیں ایک بادل سے تشبیہ دی گئی ہے اور استاد کے لیے یہ ایک بہت خوبصورت تشبیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے آرنلڈ کے علم سے بہت کم استعفادہ کیا تھا کہ وہ تشریف لے گئے اور داغِ مفارقت (جدائی کا داغ) دے گئے۔
بند نمبر 4
تُو کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم
تھی تری موجِ نفَس بادِ نشاط افزائے علم
اے علم و حکمت کے کوہِ طور کے کلیم! آپ کہاں ہیں؟ آپ کے سانس کی لہر علم کی ایک ایسی ہوا تھی جس سے امنگ اور ولولے میں اضافہ ہوتا تھا۔ آپ کے لیکچروں سے ہمارے دِل میں علم کی لذت ترقی کرتی تھی۔ اے علم کے سمندر! آپ مجھے پیاسا چھوڑ کر کہاں چلے گئے؟ آپ کی شخصیت میرے حق میں افزائشِ علم کا موجب تھی۔
اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائیِ صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
آپ کے چلے جانے کے بعد علم کے صحرا میں چلنے کا پہلے سا شوق کہاں رہا؟ ہمارے سر میں علم حاصل کرنے کا جو سودا تھا وہ آپ ہی کے دم سے تھا۔
آپ کی وجہ سے تلاش و جستجو میں بھی لطف آتا تھا۔ آپ کے جانے کے بعد اب مجھ میں علم کے صحرا کے سفر کا شوق ہی نہیں رہا۔ یہ جو ہمارے سر میں بھی علم کا جنون تھا، یہ آپ ہی کے دم سے تھا۔ آرنلڈ جس خلوص و جذبہ سے تدریس کرتے تھے اس سے طلباء میں حصولِ علم کا بہت شوق بڑھتا تھا۔
”شورِ لیلیٰ کو کہ باز آرایشِ سودا کُنَد
خاکِ مجنوں را غبارِ خاطرِ صحرا کُنَد“
یہ شعر بھی مرزا عبدالقادر بیدلؔ کا ہے۔
ترجمہ: اب لیلیٰ کے حُسن کا چرچا ہی نہیں ہے جس کہ وجہ سے لوگ مجنوں اور سودائی بن سکیں اور مجنوں کی خاک صحرا کے دل کا غبار بن سکے۔
یعنی اب وہ فضا ہی نہ رہی جس سے علم و حکمت کا چرچا تھا۔ اے محترم استاد! آپ نہیں تو اب کچھ بھی نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ سب کچھ پروفیسر آرنلڈ کی وجہ سے ہوتا تھا۔
بند نمبر 5
کھول دے گا دشتِ وحشت عقدۂ تقدیر کو
توڑ کر پہنچوں گا مَیں پنجاب کی زنجیر کو
لیکن مجھے یقین ہے کہ استادِ محترم کی جدائی میں مجھ پر جو وحشت و جنون کی کیفیت طاری ہو گئی ہے، میرا یہی جنون مقدر کی پیدا کردہ مشکلات دور کر دے گا اور میں پنجاب کی زنجیروں کو توڑ کر اپنے محترم استاد کے پاس انگلستان پہنچ جاؤں گا۔
کمال یہ ہے کہ اقبالؔ نے نظم نالۂ فراق کا یہ شعر 1904ء میں کہا تھا اور ہر طرح کی مشکلات پر قابو پاتے ہوئے 1905ء میں انگلستان چلے گئے تھے۔
دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو
کیا تسلّی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو
میری آنکھ تیری تصویر پر لگی ہوئی ہے، لیکن جو دِل تیری تقریر کا عاشق ہو، تصویر دیکھ کر اُسے کیا تسلّی ہو سکتی ہے؟
”تابِ گویائی نہیں رکھتا دہَن تصویر کا
خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویر کا“
اس لیے کہ تصویر کے منہ (دہن) میں بولنے کی طاقت (تابِ گویائی) نہیں ہے۔ تصویر کی گفتگو کو خاموشی کہا جاتا ہے۔ خاموشی ہی تصویر کی گفتگو ہے۔ یہ شعر امیر مینائی کا ہے۔