”رُخصت اے بزمِ جہاں!“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
بند نمبر 1
رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں
آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں مَیں
اقبالؔ دنیا اور اہلِ دنیا سے مخاطب ہو کر اپنے لیے رخصت ہونے کی اجازت طلب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
الوداع! اے دنیا کی محفل! میں اب اپنے وطن یعنی دامنِ کوہ کی طرف جاتا ہوں۔ تُو اگرچہ خوب آباد ہے اور تیری وسعت میں یوں تو بستیوں، شہروں اور انسانوں کی کوئی کمی نہیں، لیکن ان میں اپنا کوئی نہیں، سب خود غرض ہیں اور ایک دوسرے سے بیگانہ۔ ان سب کی بیگانگی کو سامنے رکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ تیری محفل آباد نہیں بلکہ ویرانہ ہے یعنی بظاہر آباد ہے، حقیقت میں آباد نہیں۔ اس بظاہر آباد اور حقیقتاً غیر مقام آباد سے بہت گھبراتا ہوں۔
بسکہ مَیں افسردہ دل ہوں، درخورِ محفل نہیں
تُو مرے قابل نہیں ہے، مَیں ترے قابل نہیں
میں مایوس اور دِل شکستہ ہوں اور تیری اس محفل کے قابل (درخوردۂ محفل) نہیں ہوں یعنی محفل آرائی کے لیے جو دلچسپی اور جوش و ولولہ چاہیے، میرا دِل اُس سے خالی ہے۔ پس اے بزمِ جہاں اب تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نہ ہی تُو میرے قابل ہے اور نہ ہی میں تیرے قابل ہوں، ہمارے کے راستے جُدا جُدا ہیں۔
قید ہے، دربارِ سُلطان و شبستانِ وزیر
توڑ کر نکلے گا زنجیرِ طلائی کا اسیر
اہلِ دنیا کے لیے بادشاہوں کے دربار اور عشرت گاہیں کوئی اہمیت رکھتی ہوں گی لیکن میرے لیے تو ان کی حیثیت صرف قفس اور قید خانے کی ہے۔ اور میرا دِل۔۔ کہ جو طلائی (سنہری) زنجیروں کے طلسم میں قید ہے، ان زنجیروں کو توڑ کر ان سے آزادی حاصل کر لے گا۔ مراد یہ ہے کہ علائقِ دنیا سے آزاد ہو جاؤں گا اور دنیاوی مرتبوں منصبوں سے بے نیاز ہو کر دامنِ کوہ کی تنہائی و گوشہ نشینی اختیار کروں گا۔ (شبستاں: خواب گاہ۔ وہ کمرہ جس میں دولت مند رات کے وقت بیٹھتے یا آرام کرتے ہیں؛ عموماً بہت آراستہ پیراستہ ہوتا ہے اور لوازمِ عیش موجود ہوتے ہیں)
بادشاہوں کا اور نوابوں کا دربار بہت دِلکش ہوتا ہے لیکن دراصل قید خانہ ہے۔ امیر، وزیر، درباری اور مصاحب جب تک ضمیر فروشی اور خوشامد نہ کریں۔۔ ترقی، انعام، اعزاز اور اکرام۔۔ کوئی چیز حاصل نہیں کر سکتے۔ بادشاہوں اور نوابوں کے دربار میں کوئی شخص اپنی مرضی سے کوئی کام تو درکنار بات بھی نہیں کر سکتا۔ جیل خانوں میں تو صرف جسم قید ہوتا ہے لیکن درباروں میں تو جسم اور روح۔۔ دونوں بادشاہوں کے غلام ہوتے ہیں۔ بادشاہوں اور نوابوں کی قربت اور مصاحبت سے بڑھ کر دنیا میں کوئی لعنت نہیں (زنجیر طلائی کا اسیر: بادشاہ اور نواب سونے اور چاندی کے زور سے یعنی زر پاشی کی بدولت شریفوں کو اپنا غلام بناتے ہیں، یعنی یہ تمام انعام و اکرام دراصل سنہری زنجیریں ہیں، خواہ یہ کتنی ہی خوبصورت معلوم ہوں، مقصد ان کا قید کرنا ہی ہے)
گو بڑی لذّت تری ہنگامہ آرائی میں ہے
اجنبیّت سی مگر تیری شناسائی میں ہے
اے دنیا! ! اگرچہ تیری محفلوں میں بہت ہنگامے اور ان کی وجہ سے دلچسپیوں کا بڑا سامان ہے، لیکن پھر بھی تیری واقفیت میں غیریت کی سی جھلک ہے۔ تیری جان پہچان اور تیری دوستی میں بیگانگی سی پائی جاتی ہے یعنی محبت اور خلوص نہیں ہے۔ یہ دنیا کسی کی دوست نہیں، بظاہر اس میں بڑی چہل پہل نظر آتی ہے، لیکن یہاں کوئی کسی کا ہم خیال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تیری محفلوں میں رہتے ہوئے بھی دلی طور پر ان سے بہت دور رہا اور ان میں کھو نہ سکا۔
مدّتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا
مدّتوں بے تاب موجِ بحر کی صورت رہا
یہ بات درست ہے کہ ایک عرصے سے اُن خودپسند اور متکبّر (خود آرا) لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہا ہوں جو تیرے دامن میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہر ممکن برداشت کے باوجود مجھے چین اور اطمینان نہ مل سکا اور ان کے مابین اس طرح مضطرب اور تڑپتا رہا جس طرح کہ سمندر کی بے چین موج مضطرب اور پریشان رہتی ہے، جس کی وجہ سے مجھے کبھی دِلی سکون میسر نہ آیا۔ مراد یہ ہے کہ ماحول سدا سے میرے لیے ناقابلِ برداشت ہی رہا۔
مدّتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں مَیں
روشنی کی جُستجو کرتا رہا ظُلمت میں مَیں
میں مُدّتوں تیری سرور و نشاط کی محفلوں میں بیٹھا، تیری تاریکی (ظلمت) میں روشنی کی تلاش کرتا رہا۔ گویا یہ محفلیں اپنی مادیّت پسندی کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں، جبکہ مجھے روحانی جذبوں کی خواہش رہی، جو پوری نہ ہو سکی۔ میں نے ہرچند کوشش کی کہ اس ظلمت کدے سے روشنی پا لُوں لیکن کچھ حاصل نہ ہو سکا، یہی وجہ ہے کہ مجھے کبھی سکون میسّر نہ آ سکا
مدّتوں ڈھُونڈا کِیا نظّارۂ گُل، خار میں
آہ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں
میں ایک مُدت تک اس کانٹے میں ایک پھول کا نظارہ تلاش کرتا رہا (گویا بزمِ جہاں ایک کانٹا ہے)، میں اس کوشش میں رہا کہ اس خود غرض اور خود پسند دنیا میں سچی محبت اور خلوص کی جنش مل جائے۔ لیکن افسوس وہ جنس نہ ملی اور وہ یوسف تیرے بازار میں میرے ہاتھ نہ آیا۔ پھول کی ٹہنی پر ایک کانٹا ہوتا ہے لیکن یہاں صرف کانٹا ہی نکلا، پھول نہ نکلا، افسوس کہ میرا مقصد و مدعا پورا نہ ہو سکا۔ ـ(وہ یوسف ہاتھ نہ آیا: یعنی اس دنیا میں کہ جس کے حصول کے لیے ہر شخص اپنا دین و ایمان بیچنے کے لیے تُلا ہوا ہے صداقت، دیانت اور وفا کہیں نہیں پائی جاتی)
چشمِ حیراں ڈھُونڈتی اب اور نظّارے کو ہے
آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے
(ان ناکامیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ) اب میری چشمِ حیراں (حیران آنکھ) کسی اور نظارے کی تلاش میں ہے ۔ میں، کہ جو طوفان کا مارا ہوا ہوں، مجھے اب ساحل کی آرزو ہے۔ میں نے اپنے مدعا و مقصد کی تلاش میں ہر طرف ٹھوکریں کھائیں، تیری خودغرضیوں میں بڑے دُکھ اُٹھائے، بڑی تکلیفیں سہیں۔۔ وہی حالت ہو گئی جو سمندر میں طوفان کے مارے کی ہوتی ہے، لیکن اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ چنانچہ اب مجھے سکون و راحت کی خواہش ہے، جو ظاہر ہے دامنِ کوہ کی تنہائی ہی میں میسر آ سکے گا۔
چھوڑ کر مانندِ بُو تیرا چمن جاتا ہوں مَیں
رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں
جس طرح باغ (چمن) سے خوشبو رخصت ہو جاتی ہے، بالکل اسی صورت تیری آبادی کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ الوداع! اے بزمِ جہاں! اب میں اپنے حقیقی وطن کی طرف جا رہا ہوں
پہلے بند کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دنیا شریف، مخلص اور دیانتدار آدمیوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اس کے حصول کی صورت مکر و فریب کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ چونکہ شریف آدمی نہ خوشامد کرسکتا ہے، نہ ضمیر فروشی، نہ مکاری، نہ بے ایمانی۔۔ اس لیے اس کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ سکُوت میں گھر بنائے اور انسانوں کی بجائے نرگس، گُلِ لالہ اور بلبل کی ہمسائیگی اختیار کر لے۔ چنانچہ اقبالؔ نے آئندہ بند میں اُسی زندگی کی تصویر کھینچی ہے۔
بند نمبر 2
گھر بنایا ہے سکوتِ دامنِ کُہسار میں
آہ! یہ لذّت کہاں موسیقیِ گُفتار میں
پہلے بند میں علامہ نے دنیا کی خرابیوں اور ان کے باعث دنیا سے اپنی اکتاہٹ کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے بند میں ان دلچسپیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو شہروں اور آبادیوں کے مقابلے میں جنگلوں، ویرانوں اور پہاڑوں کے دامن میں ہیں اور جو حضرت علامہ کو بہت مرغوب ہیں، جن کے باعث وہ اس دنیا کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ میں نے پہاڑ (کہسار) کے دامن کی خاموشیوں (سکوت) میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔ اس سکوت اور خاموشی میں جو لطف ہے وہ تقریروں اور گفتگوؤں میں نہیں، مزید یہ کہ اس سکون و سکُوت کو الفاظ میں بیان نہیں کہا جا سکتا، اس سے تو وہی شخص واقف ہو سکتا ہے جو اس کیفیت سے گزرے۔ علامہ اقبال نے ایک اور نظم ”ایک آرزو“ میں یہی خیال اس طرح پیش کیا ہے۔ گویا ان مناظرِ فطرت پر توجہ سے محبوبِ حقیقی کے جلوے نظر آتے ہیں۔
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اِک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
(حوالہ: بانگِ درا: ایک آرزو)
ہم نشینِ نرگسِ شہلا، رفیقِ گُل ہوں مَیں
ہے چمن میرا وطن، ہمسایۂ بُلبل ہوں مَیں
علامہ فرماتے ہیں کہ مجھے بے حِس دنیا والوں کی بجائے نرگس اور گلاب کے پھولوں کی ہم نشینی اور رفاقت زیادہ عزیز ہے۔ مَیں چمن میں رہتا ہوں اور یہ بات میرے لیے بہتر ہے کہ بلبل کا پڑوسی اور ہمسایہ ہوں۔ یہاں پھولوں کی خوشبو اور مختلف پرندوں کی چہچہاہٹ میں عجیب سرور ہے۔ یہ سب مناظر اس ذاتِ کریم کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ (نرگسِ شہلا: سرخ رنگ کی نرگس جو واقعی بہت حسین ہوتی ہے اور پہلے زمانہ کے شاعر اسے معشوقہ کی نشیلی آنکھوں ست تشبیہ دیا کرتے تھے)
شام کو آواز چشموں کی سُلاتی ہے مجھے
صبح فرشِ سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے
اس خوبصورت ماحول میں چشموں کی مست آوازیں مجھے نیند سے ہمکنار کرتی ہیں اور صبحدم کوئل کی کُوک میرے لیے پیامِ بیداری بن جاتی ہے۔
علامہ اقبال نے نظم ”ایک آرزو“ میں یہ خیال ایسے پیش کیا ہے:-
؎ لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورِشوں میں باجا سا بج رہا ہو؎ پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذن
بانگِ درا ۱۹: ایک آرزو
میں اس کا ہمنوا ہوں، وہ میری ہمنوا ہو
بزمِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند
ہے دلِ شاعر کو لیکن کُنجِ تنہائی پسند
اقبالؔ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں لوگوں کو محفل آرائی اور محفل کے ہنگامے اور رونقیں پسند ہیں، جبکہ شاعر کے دِل کو تنہائی کا گوشہ پسند ہے۔ زندگی کی محفل میں ہر شخص چاہتا ہے کہ اپنے ہم جنسوں میں بیٹھے اور عیش و عشرت سے دِل بہلائے، لیکن شاعر کے دِل کو تنہائی ہی میں سکون میسّر آتا ہے۔ وہ سب سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے۔ دنیا دار لوگ باہم مِل بیٹھنے کو اہمیت دیتے ہیں اور قدرت کے نظاروں کی طرف توجہ نہیں کرتے لیکن ایک سچا شاعر اس لیے تنہائی پسند ہے کہ وہ ان مناظر پر توجہ کر کے خالقِ حقیقی کے وجود سے آگاہ ہو جائے۔
اس بند کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص کو ہنگامہ، جلسے، محفلیں اور قہقہے پسند ہیں لیکن شاعر کو خلوت اور خاموشی پسند آتی ہے۔ جہاں کوئی انسان نہ ہو، صرف فطرت کی گلگاریاں ہوں۔ نرگس اس کی ہم نشین ہو، گُل اس کا رفیق ہو اور بلبل اس کی ہمسایہ ہو۔ جب نیند آئے تو وہ سبزہ زار پر سو جائے اور صبح کو کوئل بولے تو بیدار ہو جائے
بند نمبر 3
ہے جُنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں مَیں
ڈھُونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں مَیں؟
نظم کے اس حصے میں اقبالؔ ایک بار پھر اپنی کیفیت اور اضطراب کا احوال بیان کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں کہ میں تو شاید سودائی ہو گیا ہوں کہ آبادی سے گھبراہٹ ہونے لگی ہے۔ بار بار خود ہی اس سوچ میں گُم رہا ہوں کہ آخر وہ کون سی ہستی ہے جس کو دامنِ کوہ میں تلاش کرنے آ نکلا ہوں۔ (اس کا جواب یہی ہے کہ اس گوشۂ تنہائی میں مَیں خالقِ کائنات کی تلاش میں رہتا ہوں۔ مجھے یہاں اس کے جلوے نظر آتے ہیں)
شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے؟
اور چشموں کے کناروں پر سُلاتا ہے مجھے؟
آخر وہ کون ذات ہے جس کا شوق مجھے سبزہ زاروں کی سیر کراتا ہے اور سُریلے چشموں کے سرہانے سونے پر آمادہ کرتا ہے؟
طعنہ زن ہے تُو کہ شیدا کُنجِ عُزلت کا ہوں مَیں
دیکھ اے غافل! پیامی بزمِ قُدرت کا ہوں مَیں
اے دنیا والو! تم مجھے طعنہ دے رہے ہو کہ میں تنہائی پسند ہوں لیکن اے حقائق سے بے خبر اور غفلت برتنے والے لوگو! تمھہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ میں تمھارے سامنے فطرت اور اس کے مظاہر کا پیغام پیش کر رہا ہوں۔ میں مظاہرِ فطرت کی ترجمانی کرتا ہوں۔ کائنات میں جس قدر اور جہاں کہیں فطری حسن پایا جاتا ہے، شاعر اس کو دیکھتا ہے، اس سے متاثر ہوتا ہے اور اپنے تاثرات کو شعر کے لباس میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ بالفاظِ دِگر شاعر فطرت کا پیغام رساں ہے۔
ہم وطن شمشاد کا، قُمری کا مَیں ہم راز ہوں
اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں
میں صنوبر کا ہم وَطن ہوں یعنی جس طرح صنوبر کا درخت آبادیوں اور شہروں کی بجائے باغوں، گلستانوں، جنگلوں اور پہاڑوں پر اُگتا ہے اور آزاد زندگی گذارتا ہے، یہی کیفیت میری ہے۔ میں قمری کے دِل کے راز جانتا ہوں۔ اگرچہ چمن پر سکُوت طاری ہے لیکن اس کی خاموشی بھی میرے لیے ایک پیغام کی حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں یہاں بڑے انہماک کے ساتھ فطرت کے حسن و جمالِ معنوی کا مطالعہ و مشاہدہ کرتا رہتا ہوں۔ (گوش بر آواز: جس کے کان صدا پر لگے ہوتے ہیں)
کچھ جو سنتا ہوں تو اَوروں کو سُنانے کے لیے
دیکھتا ہوں کچھ تو اَوروں کو دِکھانے کے لیے
میں شاعر ہوں اور اس حیثیت سے جو کچھ سنتا اور دیکھتا ہوں، اُسے اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں تک پہنچاتا دیتا ہوں۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس شعر میں علامہ اقبال نے اپنا نظریۂ شعر بھی پیش کر دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ شاعر اپنی ذہانت، قوتِ مطالعہ و مشاہدہ اور عبقریت کے علاوہ قوتِ شعر گوئی کو قوم و ملک اور انسانوں کے اجتماعی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔
میں یہاں اگر کچھ سنتا ہوں تو محض دوسروں کو سنانے کے لیے سنتا ہوں اور اگر کچھ دیکھتا ہوں تو وہ دوسروں کو دکھانے کے لیے دیکھتا ہوں۔ میں جو مناظرِ فطرت پر غور کرتا ہوں، تو اس لیے کہ اس میں جو کچھ مجھے نظر آتا ہے (محبوبِ حقیقی کے جلوے) میں اس کے بارے میں دوسروں کو بتاؤں تاکہ وہ بھی اس توجہ سے محبوبِ حقیقی کے جلووں سے لطف اندوز اور اس کے وجود کے قائل ہوں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:-
”بیشک رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اللہ تعالی نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا، ان سب میں ان لوگوں کے لیے توحید کے دلائل ہیں جو خدا کا ڈر مانتے ہیں“۔
”وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو بھی نورانی بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر لیا کرو۔ اللہ نے یہ چیزیں بے فائدہ پیدا نہیں کیں۔ یہ دلائل ان لوگوں کو صاف صاف بتلا رہے ہیں جو صاحبِ دانش ہیں“۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ یونس: آیت نمبر 5 اور6)
شیخ سعدیؔ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:-
؎ برگ درختانِ سبز پیش خداوند ہوش
ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار
(سبز درختوں کا ہر ہر پتہ ایک صاحبِ دانش کے لیے کردگار کی معرفت کی ایک ایک کتاب ہے-)
عاشقِ عُزلت ہے دل، نازاں ہوں اپنے گھر پہ مَیں
خندہ زن ہوں مسندِ دارا و اسکندر پہ مَیں
میں تنہائی پسند (عاشقِ عُزلت) ہوں اور ویرانوں، جنگلوں اور کہساروں میں اپنے گھر پر مجھے فخر ہے۔ یہ زندگی ایسی ہے کہ میں اس کے مقابلے میں دارا و سکندر جیسے عظیم بادشاہوں کی حکومتوں کو ہیچ تصور کرتا ہوں۔ مجھے دنیاوی جاہ و جلال، جو سراسر فانی و عارضی ہے، سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میرے لیے یہ سب فضول ہے۔ میں تو بقائے دوام (ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی) کا قائل ہوں جو عشقِ حقیقی کا نتیجہ ہے
دارا: ایران کا نامور بادشاہ جسے سکندرِ رومی نے 328 قبلِ مسیح میں بیلا کی جنگ میں شکستِ فاش دی تھی (ہخامنشی خاندان کا آخری بادشاہ جو اردشیر سوم کے تخت پر بیٹھا۔ اردشیر نے اسے آرمینیا کا گورنر مقرر کیا تھا۔ بڑا لائق اور دلیر تھا۔ اسس اور اربیلا کی جنگوں میں سکندر اعظم کی فوجوں سے مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اور شمال کی طرف فرار ہو گیا۔ جہاں باختر کے ایرانی گورنر بے سس نے اسے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔ سکندر جس وقت دمغان پہنچا تو اسے ایرانی کیمپ میں دارا کی لاش ملی۔ اس کے قتل کے بعد ایرانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا، حوالہ: ویکی پیڈیا)
لیٹنا زیرِ شجر رکھتا ہے جادُو کا اثر
شام کے تارے پہ جب پڑتی ہو رہ رہ کر نظر
یہاں فطرت کی آغوش میں رہنا اور کسی درخت کے نیچے لیٹنے ایک طرح سے سحر طاری کر دیتا ہے، خاص طور پر جب شام ہو جائے اور آسمان پر شام کا ستارہ روشنی دینے لگے۔ جب انسان مظاہرِ فطرت پر غور کرتا ہے تو اس کے دِل کی گہرائی میں یقین ہوتا ہے کہ یہ کائنات خود بخود موجود نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے کسی علیم و حکیم اور قادرِ مطلق ہستی نے پیدا کیا ہے۔
عِلم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود!
گُل کی پتّی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود
علم کے حیرت کدے یعنی فلسفہ و منطق میں اُس حقیقتِ عظمی کا سُراغ نہیں مل سکتا جو پھول کی ایک پتّی ہم پر واضح کر سکتی ہے۔ اقبال کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انسان فطرت کے قریب رہ کر زندگی اور کائنات کے بھید آسانی سے پا سکتا ہے جبکہ شہری زندگی اور اس کے تکلّفات او رفلسفیانہ مباحث سے باتیں تو بنائی جا سکتی ہیں لیکن حقیقتِ حال کا سُراغ لگانا ممکن نہیں اور اقبالؔ کے نزدیک آبادیوں کو ویرانوں پر ترجیح بھی اسی بنا پر حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رازِ زندگی فلسفہ سے معلوم نہیں ہو سکتا، یعنی اگر کسی شخص کے دِل میں رازِ کائنات کے معلوم کرنے کا شوق ہو تو اُسے لازم ہے کہ وہ فلسفہ کی بجائے فطرت کا مطالعہ کرے۔
Beautiful ❤️