نظم ”ایک آرزو“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال کی نظم ”ایک آرزو“ ۱۹۰۲ء کے مخزن میں ۳۰ اشعار کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ نظرِ ثانی میں صرف ۲۰ شعر باقی رہے۔ یہ نظم بڑے آدمی کی زندگی میں پست اور نشیبی لمحات کی عکاسی کرتی ہے۔
۱۹۰۵ء تک، یعنی اپنی شاعری کے پہلے دور تک اقبالؔ ایک آزاد شاعر تھے۔ وہ جن مناظر یا واقعات سے متاثر ہوتے، اس کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے۔ البتہ اقبالؔ نے تقلیدی اور روایتی شاعری سے چھُٹکارہ حاصل کر لیا تھا ۔
اقبالؔ کی یہ ابتدائی شاعری مغربی شاعری کے زیرِ اثر ہے۔ اردو اور فارسی میں مناظرِ فطرت کی شاعری نہ ہونے کے برابر ہے، جو ملتا ہے وہ مُحاکات (یعنی شاعری میں واقعات کی صورت گری / منظر کشی / امیجری) نہیں بلکہ تخیّل ہے۔ فارسی شاعری گُل و بُلبُل کی شاعری ہے مگر مناظرِ فطرت کو محض عشق و عاشقی کی تمثیل کے طور پر ہی استعمال کیا گیا ہے۔
مغربی شاعری کا سب سے اچھا اثر اقبالؔ پر یہ ہوا کہ وہ مصنوعی شاعری سے بچ گئے۔ کسی انگریز شاعر کی طرح اقبالؔ نے بھی محض صناعی اور اظہارِ کمال کے لیے شعر نہیں کہا بلکہ کسی داخلی یا خارجی محرک سے متاثر ہوکر کہا۔
جن نظموں میں نظم ”ایک آرزو“ کا شمار ہوتا ہے وہ ابھی ”جزوِ پیغمبری“ نہیں بنیں، مگر اُن نظموں میں بھی افکار کی وسعت، گہرائی اور تنوع کے ساتھ ساتھ وہ افکار بھی موجود ہیں جو آگے چل کر اقبالؔ کا خصوصی پیغام اور طُرَّۂ اِمْتِیاز بن گئے۔ ان نظموں میں بھی بار بار طبیعت کا اضطراب، ایک کسک اور خودی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
نظم ” ایک آرزو“ کی تشریح و تبصرہ
دُنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لُطف انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
اُکتانا | دِل اچاٹ ہونا |
لُطف | مزہ |
انجمن | لوگوں سے بھری محفل |
دِل بُجھنا | دل میں خواہشات کا نہ رہنا، مایوسی |
تشریح و تبصرہ:
اے رب، دنیا کی محفلوں سے میرا دِل اچاٹ ہو چکا ہے، دوستوں میں باہم بیٹھنے کا مزہ اسی صورت میں ہے اگر دِل اندر سے خوش اور مطمئن ہو۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے:-
؎ مطمئن ہو دِل تو ویرانوں کے سناٹے بھی گیت
دِل اُجڑ جاۓ تو شہروں میں بھی تنہائی بہت
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
شورِش | شور و غُل، ہنگامہ |
سکُوت | خاموشی، چُپ رہنا |
فِدا | قربان |
تشریح و تبصرہ:
جبکہ میری یہ کیفیت ہے کہ شور اور رونق سے وحشت ہوتی ہے اور ایسی خاموشی کا طلبگار ہوں جس پر خاموشی بھی جان دیتی ہو۔
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
خامشی | خاموشی |
دامنِ کوہ | پہاڑ کے درمیان وادی میں |
جھونپڑا | سر چھپانے کےلیے رہنے کی معمولی جگہ |
تشریح و تبصرہ:
ایک مفکّر شخصیّت جو اپنے ساتھ وقت بتانے کو لوگوں میں رہنے پر ترجیح دیتی ہے۔ یہ نظم ایسے تمام لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ جو خاموشی پر اس قدر جان دیتا ہو کہ پہاڑ کے دامن میں، شور شرابے اور مادی دُنیا سے دور رہنا اس کی واحد آرزو رہ جائے۔
آزاد فکر سے ہوں، عُزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
فکر | پریشانی |
عُزلت | تنہائی، گوشہ نشینی |
تشریح و تبصرہ:
ایسی فکر سے آزاد زندگی گزاروں جہاں میرے دن تنہائی و خلوت میں گزریں اور دُنیا کے ہر طرح کے غم میرے دِل سے نکل گئے ہوں۔ یہ ایک مفکّر شخصیت کی درویشی، استغنا اور سادگی کی تمنا ہے۔
؎ یہ تمنّا ہے کہ آزادِ تمنّا ہی رہوں
دِلِ مایوس کو مانُوسِ تمنّا نہ بنا
لذّت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
لذّت | مزہ |
سُرود | افراد کا ایک ساتھ مل کر نغمے گانا |
شورِش | شور |
تشریح و تبصرہ:
جس آواز کا میں طالب ہوں، وہ صرف چڑیوں کے چہچہانے کی آواز ہے، جس سے مجھے وہ سرور حاصل ہوگا جو کسی گیت یا نغمے سے ہوتا ہے۔ صرف چشموں کے بہنے کا شور ہو، جس کی موسیقی یوں ہوتی ہے جیسے کوئی باجا بجا رہا ہو۔
گُل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
چٹک | پھول کے کھلنے کی غیر معمولی آواز |
ساغر | پیالہ |
جہاں نما | جہان دکھانے والا |
تشریح و تبصرہ:
لوگوں کی آمد و رفت کی بجائے، پھول کی کلی کا چٹکنا ہی میرے لیے آنے والے پیغاموں میں سے ہو اور چھوٹا سا پیالہ یعنی کہ پھول ہی کی صورت میں سارا جہاں دیکھ لوں۔اِس شعر میں پھول کی پیالے جیسی شکل کے مدِ نظر ‘ساغر’ کو پھول کے لیے استعارہ لیا ہے۔
”جہاں نما“ سے یہاں اشارہ جامِ جمشید کی طرف ہے۔ کہتے ہیں کہ قدیم ایرانی بادشاہ جمشید کے پاس ایک ایسا پیالہ تھا جس میں جھانک کر وہ واقعاتِ عالم کی جھلک دیکھ لیا کرتا تھا۔
صوفی عقائد کے مطابق یہاں وحدت الوجود کا عنصر بھی موجود ہے۔ یعنی جو کُچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالقِ حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح اس پھول کو دیکھنا درویش دِل شاعر کے لیے خدا کو دیکھنے کے مترادف ہوجائیگا۔
اس میں قرآنِ کریم کی اپنے ارد گرد کی دنیا کی پرکھنے کی دعوت بھی پیشِ نظر ہے۔
اِنَّ فِى اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّـهَارِ وَمَا خَلَقَ اللّـٰهُ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَّقُوْنَ
(حوالہ: قرآنِ حکیم: سورۃ یونس: آیت ۶)
ترجمہ: رات اور دن کے آنے جانے میں اور جو چیزیں اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کی ہیں ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ڈرتے ہیں۔
ہو ہاتھ کا سَرھانا، سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت، خلوت میں وہ ادا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
جلوَت | خلوت کی ضد، وہ جگہ جہاں تنہائی نہ ہو |
خلوِت | ایسی تنہائی جو پسندیدہ ہو |
تشریح و تبصرہ:
میری زندگی مادیّت (Materialism) سے اس قدر خالی ہو کہ میرے ہاتھ میرے سرہانے کا کام دیں اور قدرت کا سبزہ ہی میرے لیے بچھونا ہو۔ میری اس خلوت میں وہ کُچھ میسّر ہو جس سے جلوَت بھی شرما جائے۔ اِس میں صوفی و سنیاسی طرزِ زندگی سے متاثر ہونے کا عنصر ظاہر ہوتا ہے، جو غمِ روز گار کو چھوڑ کر دشت و بیاباں میں بسیرا کر لیتے ہیں۔
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بُلبل
ننھّے سے دل میں اُس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
مانوس | جانی پہچانی، جس سے اُنس ہو، آشنا |
کھٹکا | آہٹ، ہلکی سی آواز جو ڈر کا باعث بنے |
تشریح و تبصرہ:
میں قدرت کا کُچھ اس طرح سے حصّہ بن جاوں کہ بُلبُل میری صورت سے بالکل مانوس ہوجائے اور مجھ سے ہر گز نہ ڈرے۔ اِس قسم کی تصویر کشی معرفتِ حق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں
ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
صف باندھے | قطار بنائے |
بُوٹے | ننھے پودے |
تشریح و تبصرہ:
شفافیّت کا یہ عالم ہو کہ ندی کے دونوں اطراف ہرے ہرے بوٹے لہرا رہے ہوں اور ندی کا صاف پانی اس کی تصویر لے رہا ہو، یعنی وہی منظر وہاں بھی عکاس ہو۔
ہو دل فریب ایسا کُہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر، اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
دل فریب | دل کو لبھانے والا |
کوہسار | پہاڑی سر زمین |
موج | لہر |
تشریح و تبصرہ:
پہاڑوں کا نظارہ کچھ ایسا دِلکش ہو کہ پانی اُٹھ اُٹھ کر اس کو دیکھتا ہو۔ یہاں علامہ اقبال نے پانی میں موجوں کے اُٹھنے کی وجہ بیان کر کے صنعتِ حسنِ تعلیل سے کام لیا ہے۔
صنعتِ حسنِ تعلیل: شاعر کی خود ساختہ وجہ ہوتی ہے جو وہ قدرت کے کسی عمل کو بیان کرنے کے لیے، اصل وجہ کے بجائے استعمال کرتا ہے۔
آغوش میں زمیں کی سویا ہُوا ہو سبزہ
پھِر پھِر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
آغوش | گود |
تشریح و تبصرہ:
زمین سے ذرا ذرا سبزہ رونما ہو رہا ہو، یوں ظاہر ہو جیسے زمین کی گود میں سو رہا ہے جبکہ جھاڑیوں میں سے گُزرتا پانی چمک رہا ہو۔ ایک اور دِلکش اور تصویری منظر کشی جہاں پانی کا چمکنا، سورج کی موجودگی کی طرف بھی اِشارہ کرتا ہے۔
پانی کو چھُو رہی ہو جھُک جھُک کے گُل کی ٹہنی
جیسے حَسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
گُل کی ٹہنی | پھول سے بھری شاخ |
پھول کی جھُکی ہوئی شاخ جب بار بار پانی کو چھُوتی ہو تو یوں لگے جیسے کوئی حسین شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہا ہے۔ یہاں اقبالؔ نے گُل کو حسین سے تشبیہ دے کر تجسم سے کام لیا ہے۔
تجسم: کسی شے کو انسانی خوبی سے نواز کر اس میں خوبصورتی پیدا کرنے کا نام ہے۔
مہندی لگائے سورج جب شام کی دُلھن کو
سُرخی لیے سنہری ہر پھُول کی قبا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
قبا | لِباس، اوڑھنی |
تشریح و تبصرہ:
جب سورج شام کی دلہن کو مہندی لگائے یا جب اس کا بناو سنگھار کرے یعنی شفق پھُوٹے، تو ہر پھول کے سنہرے لباس سرخی مائل ہو جائیں۔ یہاں شام کے لیے دُلہن کا استعارہ لیا گیا ہے، جس کے حُسن کو سورج شفق کی مدد سے دوبالا کرتا ہے اور سُرخ لباس پہنا کر ہر طرف جشن کا سما کر دیتا ہے۔
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمّید اُن کی میرا ٹُوٹا ہوا دِیا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
دم | سانس، مراد: وقت |
ٹوٹا ہوا دیا | چراغ جو ٹوٹا ہوا ہو |
تشریح و تبصرہ:
جب راتوں کو چلنے والے مسافر تھک جائیں تو میری جھونپڑی اُن کے لیے اُمید کا باعث ہو، یعنی جھونپڑی ایسی دُور دراز جگہ پر ہے جہاں کسی مسافر کو اور کسی آرام گاہ کی امید نہ ہوگی۔ ٹوٹا ہوا دیا بھی یہاں اہم ہے۔ ایک سچا درویش، اپنے پاس جو بھی دُنیاوی مال و متاع رکھے گا اُس میں عیش و عشرت کا کوئی پہلو نہیں۔ جو کُچھ اُس کے پاس ہے وہ محض ضرورت ہے اور اس سے بھی وہ اوروں کی مدد ہی کا خواہشمند ہے۔
بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھِرا ہوا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
کُٹیا | جھونپڑی |
تشریح و تبصرہ:
جب بادلوں سےبھری گہری شب میں بارش برسنے والی ہو، تب بجلی چمکنے سے اُن کو میری کُٹیا نظر آ جائے (یہاں دنیا سے کٹ کر رہنے کی خواہش کے باوجود اپنی خدمتِ خلق کی تمنا کا اظہار کرتے ہیں)۔
پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی مؤذِّن
مَیں اُس کا ہم نوا ہوں، وہ میری ہم نوا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
کوئل | سیاہ رنگ کا خوش آواز پرندہ |
موذن | اذان دینے والا |
ہم نوا | ساتھ گانے والا، ہم آہنگ |
تشریح و تبصرہ:
پچھلے پہر کی کوئل، جو صبح سویرے اُٹھ کر اپنی خوبصورت آواز میں چہچہاتی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اذان دے رہی ہے، میں اُس کے ساتھ گاؤں اور وہ میری ہم نوا بن جائے۔
پچھلے پہر سے مراد صبحِ صادق کا وقت ہے، یعنی سورج نکلنے سے کُچھ پہلے کا وقت۔
کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
دیر | بُت خانہ |
حرم | کعبہ |
روزن | سراخ، روشن دان |
تشریح و تبصرہ:
میرے کانوں پر مندر یا مسجد کے کوئی آثار نہ ہوں۔ میری جھونپڑی کا سراخ ہی مجھ کو صبح کا پیغام سنائے۔ اس میں وہی بیزاری کا عنصر موجود ہے جو نظم ”نیا شِوالہ“ میں ملتا ہے۔
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تُو بُرا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا چھوڑے ترے فسانے
(حوالہ: ”بانگِ درا 43: نیا شِوالہ“ از علامہ اقبال)
میرے اعصاب پر کوئی تعصّب نہ ہو۔ میں قدرت کے اس قدر قریب ہوں کہ اس کو پہچاننے کے لیے مجھے کوئی راہ نہ لینی پڑے۔ واعظ کے وعظ اور برہمن کے فسانوں سے تنگ آ کر ارتقائے فکر سے پہلے کے اقبالؔ اک یہی رہِ فرار دیکھتے ہیں جس میں وہ خدا کے قریب بھی ہوں اور خدمتِ خلق میں بھی اپنا حصہ ڈال سکیں۔
پھُولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دُعا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
شبنم | اوس، صبح سے پہلے پودوں پر پڑنے والی نمی |
نالہ | فریاد، گریہ و زاری |
تشریح و تبصرہ:
جس وقت شبنم کے قطرے پھولوں پر پڑیں، اس منظر کو پھولوں کے وضو کرنے سے جوڑا گیا ہے؛ اُس وقت میرا رونا میرا وضو ہو اور آہ و زاری میری دعا کا کام کرے۔ یہاں اس کسک اور اضطراب کی کیفیت واضح ہو رہی ہے جو دنیا سے بیزاری کے سبب آئی ہے۔ یہ رونا اور نالہ و زاری روح کی وہ پکار ہیں جو راستہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں بھی خدا کی یاد میں بھٹکتی ہوئے اس کی فریاد ہے۔
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
خامشی | خاموشی |
نالے | ‘نالہ’ کی جمع۔فریاد، گریہ، آہ و زاری، نوحہ و فریاد |
صدا | آواز |
درا | قافلے کو چلانے کے لیے بجائی جانے والی گھنٹی |
تشریح و تبصرہ:
میری آہ و زاری اس قدر پُر زور ہو کہ وہ تاروں تک جا پہنچے اور اُن کے لیے اُس گھنٹی کا کام کرے جس سے قافلہ کوچ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یو تاروں کے وہ قافلے کوچ کرنے کی تیاری کر لیں یعنی تارے غروب ہونا شروع ہو جائیں، رات کا سحر ٹوٹ جائے اور ایک روشن صبح طلوع ہو۔ یہاں اُسی خودی نے سر اُٹھایا ہے جو اقبال کے ارتقائے فکر کے بعد کُھل کر سامنے آتی ہے۔
ہر دردمند دل کو رونا مرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید انھیں جگا دے
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
دردمند | دُکھی، آفت کا مارا |
تشریح و تبصرہ:
شورش سے دور ہونے کی تمنا اس لیے بھی ہے کہ اس خاموشی میں انسان کے لیے اپنے اندر کی آواز کو سننا آسان ہے۔ یہ ہر اس شخص کے اندر کی آواز ہے جو دُنیا سے بیزار ہے، مگر سچ کی جستجو میں مُضطرب (بے چین و بے قرار) ہے۔ جو شاید اپنی اس آرزو اور کیفیت کو دبانے میں مصروف ہے، لہذا ایک بے ہوش جسم سے بڑھ کر کُچھ بھی نہیں۔ شاید اقبالؔ کی یہ آواز اس کے دل کے کسی تار کو بجا دے۔واضح ہو کہ عُزلت نشینی کی خواہش کے باوجود اقبالؔ دوسروں کے لیے جینا چاہتے ہیں اور انکی بیداری کے خواہشمند ہیں۔
تبصرہ
یہ نظم اپنی سادگیِ سلاست، تاثیر یعنی اثر آفرینی اور شاعرانہ خوبیوں کے لحاظ سے بانگِ درا کی بہترین نظموں میں سے ہے۔ اقبالؔ نے اِس نظم میں شاعرانہ مصوّری کا کمال دِکھایا ہے۔ ان محاسنِ معنوی کے علاوہ اُنہوں نے اس میں پاکیزہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔
یہ خیالات، جن کا اظہار اقبالؔ نے اِس دِل پذیر نظم میں کیا ہے، کم و بیش ہر اُس شخص کے دِل میں موجزَن ہوتے ہیں جو دُنیا اور دُنیا والوں کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ اب اس کے بعد عمل کی منزل آتی ہے تو جن لوگوں کی قوتِ ارادی زبردست ہوتی ہے وہ ایک جھٹکے میں سارے تعلقات توڑ کر رکھ دیتے ہیں اور دامنِ کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنا کر اپنی زندگی عُزلت میں بسر کر دیتے ہیں اور جو اِس نعمت (قوتِ ارادی) سے محروم ہوتے ہیں وہ راقم الحروف کی طرح ترکِ دُنیا کی منصوبہ بندی ہی میں گُزار دیتے ہیں۔
حضرتِ اقبالِ اگرچہ پورے طور پر اِس آرزو کو عملی جامہ نہ پہنا سکے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں بڑی حد تک درویشی، اِستغنا اور عُزلت کی شان پیدا کر لیت تھی۔ اُن کی زندگی میں سادگی تو اِس درجہ نمایاں تھی کہ میں نے آج تک اس کی نظیر نہیں دیکھی۔
”ایک آرزو“ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عزلت نشینی کی آرزو کے باوجود اقبالؔ دوسروں کے لیے جینا چاہتے ہیں اور یہی ایک مسلمان کی شان ہے کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے جیتا ہے۔ اقبالؔ اُن لوگوں کو، جو بے ہوش پڑے ہیں، جگانا چاہتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کے فضل و کرم سے اُن کی یہ آرزو پوری کر دی اور آج جو کُچھ مسلمانوں میں بیداری نظر آتی ہے، یہ سب اقبالؔ کے پیغام ہی کا ثمرہ ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)