”شمع“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
بند نمبر 1
بزمِ جہاں میں مَیں بھی ہُوں اے شمع! دردمند
فریاد در گرہ صفَتِ دانۂ سپند
اے شمع! دنیا کی محفل میں مَیں بھی تیری طرح درد مند اور دُکھیا ہوں اور ہرمل کے دانے کی طرح ہمہ وقت نالہ و فریاد اور آہ و زاری پر آمادہ رہتا ہوں۔ ہرمل کے دانے کو آگ میں ڈالا جائے تو اُس سے چٹخنے کی آواز آتی ہے جسے اقبالؔ نے ہرمل کی فریاد سے تعبیر کیا ہے۔ گویا اقبالؔ کہتے ہیں کہ جس طرح ہرمل آگ میں گرتے ہی آواز پیدا کرتا ہے، اُسی طرح میں بھی ہر وقت نالہ و فریاد پر آمادہ رہتا ہوں۔
دی عشق نے حرارتِ سوزِ درُوں تجھے
اور گُل فروشِ اشکِ شفَق گوں کِیا مجھے
عشق نے تجھے باطنی جلن اور گرمی عطا کی ہے اور مجھے سُرخ آنسوؤں کے پھول بیچنے والا بنا دیا ہے۔
ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمع مزار تُو
ہر حال اشکِ غم سے رہی ہمکنار تُو
اے شمع! تُو کسی عیش و عشرت کی محفل پر جلے یا کسی مزار پر روشنی کر رہی ہو، یعنی خواہ تُو مسرّت و شادمانی کے جذبے سے سرشار ہو، خواہ مبتلائے غم ہو، تجھے ہر حال میں آنسو بہانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ شمع کے جلنے پر پگھلے ہوئے موم کے جو قطرے گرتے ہیں۔ اقبالؔ نے اُنہیں عشق کے باعث گرنے والے غم کے آنسوؤں سے تشبیہ دی ہے۔
بند نمبر 2
دوسرے بند میں یہ بتایا ہے کہ شمع عاشقانِ زار کی طرح امتیاز سے پاک ہوتی ہے اور میں امتیاز میں پھنسا ہوا ہوں۔
یک بِیں تری نظر صفتِ عاشقانِ راز
میری نگاہ مایۂ آشوبِ امتیاز
اے شمع! تُو قدرت کے رازوں کے شیدائیوں کی طرح یک بیں ہے یعنی جس طرح یہ لوگ اچھے برے اور کھوٹے کھرے میں تمیز کیے بغیر سب کو مساوی درجہ دیتے ہیں، اسی طرح تُو بھی سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرتی ہے۔ جبکہ میری نگاہ اُس دولت سے مالا مال ہے جو امتیازات اور تفریق و تفرقہ پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔ یعنی حقائقِ حیات کا مشاہدہ غیر جانبدار ہو کر نہیں بلکہ مختلف تعصبات کے حوالے سے کرنے کا عادی ہوں۔ اِس شعر میں لطف یہ ہے کہ شمع کا صرف ایک ہی شعلہ ہوتا ہے اور اگر اسے شمع کی آنکھ فرض کر لیا جائے تو وہ واقعی یک بیں (صرف ایک کو دیکھنے والی) قرار پائے گی۔
صفتِ عاشقانِ راز: یہ یک بیں نظر کی صفت ہے کیونکہ عاشقانِ راز کو اس کائنات میں دوسری ہستی نظر نہیں آتی۔ واضح ہو کہ اس مصرعہ اقبالؔ نے دنیا کے اس اہم فلسفہ کے بنیادی تصوّر کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی تعلیم یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا اور کسی ہستی کا وجود نہیں ہے۔۔ سالک جب اس طریق پر گامزن ہوتا ہے کہ وہ ہر شے میں اسی کا جلوہ دیکھے، دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کرے تو اس کو اصطلاح میں وحدۃ الوجود کہتے ہیں۔ عاشقانِ راز کی ترکیب بھی غور طلب ہے کیونکہ لفظ راز میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ مسئلہ وحدۃ الوجود ایک راز ہے جس سے ہر شخص واقف نہیں ہو سکتا۔ یہ رز صرف ان لوگوں پر فاش کیا جاتا ہے جو اس کے اہل ہوں۔
مایۂ آشوبِ امتیاز: لفظی معنی امتیاز و اختلاف کی پونجی۔ اس اصطلاح کے معنی ہیں اشیائے کائنات میں امتیاز کرنا۔ اس کی مثال:-
- زید کو اپنا دوست یا بھائی سمجھنا اور رام چندر کو غیر یا دشمن سمجھنا۔
- پھول اور بلبل کو اچھا سمجھنا اور کانٹے یا اُلّو کو برا سمجھنا۔
تصوّف کی تعلیم اس کے برعکس یہ ہے کہ کی دنیا میں کوئی غیر نہیں ہے۔ سب اُسی کے بندے ہیں اور پھول کی طرح کانٹے میں بھی حُسن ہے۔ وہ بھی پھول کی طرح ایک مظہرِ ذاتِ باری تعالی ہے۔ یعنی جس طرح ایک حسین چیز میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے اسی طرح ایک بدصورت شۓ میں بھی اسی کی شان دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ اس امتیاز سے اختلاف اور اختلاف سے فسادات رونما ہوتے ہیں اس لیے شاعر نے آشوب کا لفظ استعمال کیا ہے۔
کعبے میں، بُت کدے میں ہے یکساں تری ضیا
مَیں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہُوا
اے شمع! چونکہ تُو یک بیں ہے، اس لیے مسجد اور مندر میں کوئی فرق نہیں کرتی، دونوں کو یکساں طور پر منوّر کرتی ہے۔ چونکہ ہر شمع کی لَو ایک ہی ہوتی ہے اور لَو کو اگر آنکھ فرض کر لیا جائے تو ظاہر ہے کہ ایک آنکھ سے کوئی شے دو نظر نہیں آ سکتی۔ اس کے برعکس میری حالت یہ ہے کہ میں بُت کدے اور کعبے میں فرق و امتیاز کے چکر میں اٗلجھا ہوا ہوں۔
ہے شان آہ کی ترے دُودِ سیاہ میں
پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟
تیرے سیاہ دھوئیں میں آہ کی شان ہے (جب انسان آہ بھرتا ہے تو اس کا سانس کسی قدر باہر آتا ہے، اسی حوالے سے یہ کہا ہے)۔ آہ یا آہیں بھرنا عشق کی علامت ہے اور عشق کا جذبہ دِل میں ہوتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ تیری جلوہ گاہ میں کوئی دِل چھپا ہوا ہے۔ گویا تُو بھی عاشق ہے اور دھوئیں کی صورت میں آہیں بھر رہی ہے۔
بند نمبر 3
تیسرے بند میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ شمع جلتی ہے، آنکھیں رکھتی ہے، مگر اپنے دِل کی جلن سے آگاہ نہیں اور میں تڑپتا بھی ہوں اور اس تڑپ کا احساس بھی مجھ میں ہے۔
جلتی ہے تُو کہ برقِ تجلّی سے دُور ہے
بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نُور ہے
اے شمع! تُو اس لیے جلتی ہے کہ تجلّی کی بجلی سے دُور ہے (نورِ الہی کی وہ بجلی جو حضرت موسیؑ کا کوہِ طور پر نظر آئی تھی، جسے دیکھ کر وہ بیہوش ہو گئے تھے) جبکہ ظالم و سنگدِل لوگ تیرے سوزِ عشق کو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نور ہے۔ تجھ میں اس محبوب کا عشق سمایا ہوا ہے اور اس سے دوری کے باعث تُو غم میں مبتلا ہے، لیکن لوگ اسے روشنیِ عام سمجھتے ہیں۔
اِس شعر میں کمال یہ ہے کہ شمع کے لیے لفظ ”جلتی ہے“ استعمال ہوا ہے جو اپنے حقیقی اور مجازی معنوں میں پورا اترتا ہے۔
تُو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں
بِینا ہے اور سوز درُوں پر نظر نہیں
یہاں تک شمع اور شاعر دونوں میں بہت مشابہت ہے۔ اب اختلاف شروع ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شمع کو اپنے عشق کا یا محبوبِ حقیقی سے فراق کا شعور نہیں ہے لیکن انسان کو یہ شعور حاصل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں آگاہی یعنی شعورِ ذاتی کی صفت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اقبالؔ شمع سے کہتے ہیں کہ:-
؏ تُو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں
میں بھی جل رہا ہوں لیکن مجھے یہ شعور ہے کہ میں جل رہا ہوں۔
مَیں جوشِ اضطراب سے سیماب وار بھی
آگاہِ اضطرابِ دلِ بے قرار بھی
جبکہ میں شدتِ اضطراب (بے قراری کی شِدّت) سے تڑپ بھی رہا ہوں اور مجھے اس تڑپنے کا شعور بھی حاصل ہے۔ بات یہ ہے کہ مجھے خدا نے اس بات کا احساس عطا کر دیا ہے کہ میں جل رہا ہوں۔ میری یہ آگہی، میرا یہ شعورِ ذاتی یا احساس بس یہی تو میری بے قراری کا باعث ہے۔ انسان میں اگر شعورِ ذاتی نہ ہوتا تو اسے نہ کوئی جستجو ہوتی نہ اضطراب، نہ سوز و گداز، نہ لذتِ فراق، نہ گریۂ نیم شبی، نہ نالۂ سحرگاہی، نہ کشمکش، نہ ہنگامہ۔ انسانی زندگی بھی حیوانات کی طرح پُر سکون ہوتی۔
تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا
احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا
یہ بھی کسی بے نیاز (یعنی خالقِ حقیقی) کا ناز تھا جس نے مجھے اپنے سوزِ عشق کا احساس دے دیا۔ کائنات کی مختلف اشیاء و مخلوقات گویا اس محبوب کے ناز ہیں جنہیں دیکھ کر ایک صاحبِ بصیرت اس ذاتِ اقدس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
بند نمبر 4
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
مجھے آگہی اور ذات کا شعور دیا گیا ہےجو ہر لمحہ مجھے بے قرار رکھتا ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ ایک معمولی سی چنگاری نظر آتا ہے لیکن اس میں ہزاروں آتش کدے موجود ہیں یعنی بہت زیادہ حرارت و گرمی پوشیدہ ہے۔
یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے
گُل میں مہک، شراب میں مستی اسی سے ہے
یہی آگہی ہے جس کے باعث اعلی و ادنی، بلندی و پستی کا فرق قائم ہے۔ یہی آگہی ہے جو پھول کی خوشبو اور شراب کی مستی میں لگ الگ شناخت اور پہچان قائم کرتی ہے۔
کائنات میں ہر قسم کا امتیاز اسی ذاتی شعور کی کار فرمائی ہے۔ جب زیدؔ نے کہا کہ میں زیدؔ ہوں، تو دوسروں کو دیکھ کر یہ کہا کہ یہ مثلاً بکر ہے، یہ خالد ہے اور یہ دونوں میرے غیر ہیں۔۔ مجھ سے جدا ہیں۔
بُستان و بُلبل و گُل و بُو ہے یہ آگہی
اصلِ کشاکشِ من و تُو ہے یہ آگہی
اسی شعور کی بدولت باغ و بلبل، پھول و خوشبو، میں و تٗو کے مابین فرق قائم ہوا ہے۔ مراد یہ کہ آگہی محض کائنات کی چیزوں اور انسان کے خود ”میں“ اور”دوسروں“ میں فرق و تفریق کرنے کا عمل ہے ورنہ اس خالق کا جلوہ تو سب میں نمایاں ہے جس پر غور کرنے سے انسان اس خالق کے وجود کا قائل ہو جاتا ہے اور کائنات کو اسی کا وجود سمجھتا ہے ورنہ کائنات کا اپنا کوئی وجود نہیں۔
صوفی کی نگاہ میں ”بستان و بلبل و گُل و بُو“ ان سب کی اصل واحد ہے۔ اس لیے یہ سب ایک ہی حقیقت کی مختلف شکلیں ہیں۔ جس طرح پانی کو گول برتن میں ڈال دو تو گول نظر آئے گا اور مربع برتن میں چوکور دکھائی دے گا (اصل کے لحاظ سے اشیاء میں اختلاف نہیں۔ اسی آگہی کی بدولت مختلف اشیاء کے مابین فرق قائم ہے اور مختلف مظاہرِ قدرت کی الگ الگ شناخت موجود ہے۔ یہ آگہی ہی مختلف افراد کے درمیان اختلافات کا باعث بنتی ہے)
اقبالؔ نے اس شعر میں اسی نکتہ کو واضح کیا ہے:۔
؎ کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گِرے رگِ گُل سے قطرہ انساں کے لہو کا
(حوالہ: بانگِ درا)
بند نمبر 5
یہ پورا بند وجود کی اس تشریح پر مبنی ہے جو اہلِ تصوّف کے ہاں عام ہے یعنی انسان نورِ مطلق کا جزو تھا۔ اس نے الگ وجود قبول کیا تو اصل سے علیحدہ ہو گیا۔ یہ زندگی اس کے لیے بے وطنی ہے، لیکن وہ بے خبری سے اسے وطن سمجھ رہا ہے۔
صبحِ ازل جو حُسن ہُوا دِلستانِ عشق
آوازِ ’کُن‘ ہوئی تپش آموزِ جانِ عشق
جب اللہ کو یہ منظور ہوا کہ کوئی ہستی ایسی ہو جو میرے حُسن و جمال پر شیدا ہو تو اُس نے کلمۂ کُن سے یہ کائنات پیدا کی اور حضرتِ انسان کو اس کا سردار بنایا اور اپنی محبت کی چنگاری اس کے دل میں پوشیدہ کر دی۔ اقبالؔ نے یہ مضمون ”کنت کنزا مخفیا“ والی حدیث سے لیا ہے، یعنی اللہ نے فرمایا کہ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوقات کو پیدا کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسان کی روح کہاں سے آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روح خدا سے جدا کوئی مستقل وجود نہیں رکھتی۔ کائنات کی ہر شے میں اسی کی ذات و صفات کی تجلّی جلوہ گر ہے اور یہ تجلّی بدرجۂ اُتّم اور بطرزِ احسن حضرتِ انسان میں نظر آتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ روحِ انسانی اللہ کی آغوش میں تھی، اس سے جدا ہو کر دنیا میں آئی اور جسمِ انسانی سے وابستہ ہو گئی۔
یہ حکم تھا کہ گُلشنِ ’کُن‘ کی بہار دیکھ
ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ
تو عاشق (انسان) کو حکم ہوا کہ جا اور ”کُن“ کے کہے سے جو باغ میں نے پیدا کیا ہے، اُس کی بہار دیکھ۔۔ واضح ہو کہ:-
؏ ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ
اس مصرع میں ”خوابِ پریشاں“ کی ترکیب بہت اہم ہے کیونکہ اس میں ہمہ اوست کا راز بیان کیا گیا ہے۔ ”عقیدۂ ہمہ اوست“ کہ رو سے ہماری حالت اس انسان کی سی ہے جو خواب دیکھ رہا ہو۔ خواب میں انسان کو کچھ دیکھتا ہے اسے بالکل صحیح اور حقیقی اور واقعی یقین کرتا ہے۔ مثلاً زیدؔ نے خواب دیکھا کہ میں بمبئی گیا ہوں، اور وہاں جا کر میں نے ایک حسین لڑکی سے شادی کی اور شام کے وقت میں موٹر میں سیر کو نکلا، سڑک پر تصادم وہ گیا۔۔ یک لخت میری آنکھ کھل گئی تو نہ بمبئی تھی، نہ وہ حسینہ تھی اور نہ وہ موٹر کار تھی۔ لیکن جب وہ خواب دیکھ رہا تھا اس وقت اسے بمبئی کے وجود میں شک تھا اور نہ اُس حسینہ کے وجود میں کوئی شبہ تھا۔
بس یہی حالت ہماری ہے۔ ہم سب خواب دیکھ رہے ہیں۔ جب موت آئے گی یعنی جب آنکھ کھُل جائے گی تو نہ لاہور ہوگا، نہ بانگِ درا ہو گی اور نہ اُس کی شرح ہو گی۔
؎ وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
(شاعر: خواجہ میر دردؔ)
اب پڑھیے اس مصرع کو:-
؏ ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ
مطلب یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے اس کی حقیقت خواب سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی میں ہزاروں حادثات اور واقعات سے دو چار ہوتا ہے۔ لیکن یہ تمام حادثات “خوابِ پریشاں” سے زیادہ کوئی حقیقت یا اصلیت نہیں رکھتے۔
؎ ہے غیب غیب جس کو ہم سمجھتے ہیں شہود،
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
(شاعر: مرزا غالبؔ)
مجھ سے خبر نہ پوچھ حجابِ وجود کی
شامِ فراق صبح تھی میری نمود کی
اے مخاطب! تُو مجھ سے وجود کے اس پردے کے بارے میں مت پوچھ جو مخلوق کے وجود میں آنے کے بعد خالق اور مخلوق کے درمیان حائل ہو گیا ہے۔ پس یہ سمجھ کہ میں جو ظاہر ہوا یا میری نمود ہوئی تو میری صبح (یعنی نمود) اپنی اصل سے فراق (جُدائی) کی شام تھی۔
یہ تو سچ ہے کہ اللہ تعالی نے عاشقوں کا مجمع پیدا کر دیا، لیکن اس تخلیق کا بندہ کے لیے ایک نا خوشگوار پہلو یہ نکلا کہ روح اور خدا میں ”وجود“ کا حجاب (پردہ) حائل ہو گیا۔ اگر یہ حجاب درمیان سے دُور ہو جائے تو پھر بقول اقبالؔ صورت یہ ہوگی:-
؎ صیّاد آپ، حلقۂ دامِ ستم بھی آپ
بامِ حرم بھی، طائرِ بامِ حرم بھی آپ
پھر دوئی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی نکتہ کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے:-
؎ وہ بزمِ یثرب میں آ کے بیٹھیں پزار منہ کو چھُپا چھُپا کر
نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اُٹھا کر
قصۂ مختصر، جب میری نمود کی صبح ہوئی یعنی جب میرا ظہور ہوا تو محبوب (اللہ تعالی) سے جدائی ہو گئی۔ یعنی نمود فراق (جدائی) پر موقوف ہے۔ ہر انسان جو موجود ہے، اپنی اصل سے جدا ہو کر اس عالم میں موجود ہوا ہے۔
وہ دن گئے کہ قید سے مَیں آشنا نہ تھا
زیبِ درختِ طُور مرا آشیانہ تھا
وہ دِن گزر گئے جب میں ہر طرح کی قید سے آزاد ہوا کرتا تھا اور میرا آشیانہ طور کے درخت کی زینت کا باعث بنا ہوا تھا۔ گویا انسان خدا کے قریب تھا لیکن جب اسے زمین پر اُتارا گیا تو گویا اس کو کائنات میں قید کر دیا گیا جبکہ اس سے پہلے وہ خدا کے نور کی صورت میں تھا یا ظاہری وجود سے پہلے تجلی الہی کے ساتھ تھا، در اصل یہ شعر وحدت الوجود کے اس اہم اور بنیادی نظریے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی رو سے انسان سمیت ہر شے خدا کی ذات کا حصہ تھی۔ جیسا کہ غالبؔ کہتے ہیں (اس میں ”وحدت الوجود“ کی طرف اشارہ ہے):-
؎ نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
(شاعر: مرزا غالبؔ)
درختِ طُور پر آشیانہ: اس سے مراد ہے وہ زمانہ جب انسان اِس دُنیا میں نہیں آیا تھا۔
قیدی ہوں اور قفَس کو چمن جانتا ہوں میں
غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں
اب میں (انسان) قیدی ہوں اور اپنے پنجرے یعنی کائنات کو چمن سمجھتا ہوں۔ پردیس کے غم خانے کو اپنا وطن سمجھ رہا ہوں یعنی میں جنت سے نکل کر (جو کہ میرا وطن تھا) زمین پر آ گیا اور بسنے لگا۔ میرے لیے یہ پردیس ہے لیکن غموں کے اس گھر کو (انسان کو یہاں مختلف غم ستاتے رہتے ہیں) میں اپنا وطن سمجھ رہا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے وجود سے اور دنیا سے ویسا ہی گہرا تعلق پیدا کر لیا ہے، جیسا پرندے کو چمن سے ہوتا ہے۔
گویا اس دنیا کی تخلیق کے ساتھ ہی وہ دور بھی ختم ہو گیا، چنانچہ جب میں دنیا میں آیا تو جسم کی قید میں بھی آگیا۔ یعنی:-
؏ وہ دِن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا
دنیا میں میری حالت قیدی کی سی ہے، لیکن افسوس کی میں اپنی غفلت کی وجہ سے جیل خانۂ دُنیا کو اپنا وطن سمجھتا ہوں، یہی تو وجہ ہے کہ پختہ سے پختہ تر عمارت بنواتا رہتا ہوں:-
؏ سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں
قفس کو چمن جانتا ہوں میں: اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا در اصل قفس ہے جس میں روح مقید ہے۔ لیکن جہالت یا غفلت کی وجہ سے انسان اس دنیا کو اپنا وطن سمجھتا ہے۔
یادِ وطن فسُردگیِ بے سبب بنی
شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی
حلِ لغات:
فسُردگی | افسُردگی، اُداسی، رنج و غم |
بے سبب | بِلا وجہ |
ذوقِ طلب | جستجو کا ذوق |
تشریح:
البتہ اپنے وطن کی یاد کبھی کبھی مجھے غمگین کر دیتی ہے اور یہ یاد کبھی فکر و نظر کے شوق کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کچھ پانے کی خواہش کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ یعنی کبھی تو میں اپنے محبوبِ حقیقی کے بارے میں غور و فکر کرتا اور سوچتا رہتا ہوں اور کبھی اُسے پانا چاہتا ہوں۔
بند نمبر 6
اب اِس نظم کا مشکل ترین حصہ شروع ہوتا ہے۔ مضمون تو وہی ہے لیکن اندازِ بیان بہت بلیغ ہے۔ اس لیے مضمون الفاظ کے پردہ میں پوشیدہ ہو گیا ہے۔ گویا اس نظم میں الفاظ اور معانی دونوں کا کمال نظر آتا ہے۔ اقبالؔ نے ایک مشکل فلسفیانہ مضمون کو ادا کرنے کے لیے غالبؔ کا اندازِ بیاں اختیار کیا ہے۔
”اے شمع! انتہائے فریبِ خیال“ سے لے کر آخری شعر تک ہر مصرع استعارہ کنایہ، استعارہ بالکنایہ، مجازِ مرسل اور مجازِ عقلی سے لبریز ہے۔ اقبالؔ نے ہر بات کو رمز و ایما کے پردوں میں بیان کیا ہے۔ تیسری دشواری یہ پیدا کہ ہے کہ فارسی تراکیب بکثرت استعمال کی ہیں مثلاً ”سرِ دیوانِ ہست و بُود“ ۔۔ ”عالم ظہور جلوۂ ذوقِ شعور ہے“ ۔۔ ”طوقِ گلوئے حُسن تماشا پسند ہے“ ۔۔ ان تراکیب سے مسرعوں میں بلاغت کا رنگ پیدا ہو گیا ہے اور کلامِ بلیغ سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔
اے شمع! انتہائے فریبِ خیال دیکھ
مسجودِ ساکنانِ فلک کا مآل دیکھ
اے شمع! ذرا ہماری (انسانوں کی) غلط فہمی ملاحظہ کر۔ ہم جو کبھی فرشتوں کے مسجود تھے، ہمارا انجام دیکھ۔ کبھی ہمیں وہ مقام حاصل تھا اور آج دنیا میں ہمارا کیا حشر ہو رہا ہے۔ مختلف غموں نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ انسان اس فریب میں مبتلا ہیں کہ میں کوئی مستقل ہستی ہوں اور یہ دنیا میرا وطن ہے، چنانچہ آپس میں بر سرِ پیکار ہیں، فرقہ پرستی اور اس قسم کی دوسری لعنتوں نے انسان کو اس کے مقام سے گرا دیا ہے۔ بقول شاعر:-
؎ کس منہ سے کوئی عظمتِ آدم کا نام لے
جب آدمی فریب کرے آدمی کے ساتھ
مضموں فراق کا ہوں، ثریّا نشاں ہوں میں
آہنگِ طبعِ ناظمِ کون و مکاں ہوں میں
اگرچہ میں اب اپنی حقیقت (خدا) سے بہت دُور ہوں، میں جدائی (فراق) کا مضمون ہوں۔۔ ہجر کا مارا ہوں، لیکن میرا رُتبہ ثریّا کے برابر ہے (یعنی اصل کے اعتبار سے زمینی نہیں ہوں بلکہ خاک سے بہت بلند ہوں)۔ میں خالقِ کائنات کی طبیعت سے مناسبت رکھتا ہوں یا خدا سے ایک خاص رابطہ رکھتا ہوں۔
انسان کیا ہے؟ فراق کا مضمون ہے۔ یعنی اللہ سے جدا ہو گیا ہے۔ اپنی ذات کے لحاظ سے ثریا کی طرح بلند ہے بلکہ خدا سے ہم آنگ ہے۔ جو لوگ اس عالم کو بالذات شۓ سمجھتے ہیں وہ در اصل غلط نِگر ہیں۔ حقیقت سے آشنا نہیں ہیں۔ یہ کائنات کچھ نہیں ہے محض ذوقِ شعور کے جلوہ کے ظہور کی شدت کا نام ہے۔ اگر اللہ کو یہ منظور نہ ہوتا کہ کوئی اسے دیکھے اور اس کی حمد و ثناء کرے، اس سے محبت کرے، تو یہ عالم موجود ہی نہ ہوتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ عالم کی اصل وجود نہیں بلکہ عدم ہے۔ اور عدم کا تقاضائے ذات عدم ہی ہوتا ہے نہ کہ وجود۔ یہ تو کسی کے موجود کرنے سے وجود ہوا ہے اور جب اس کی صفتِ تخلیق کی تجلّی رُک جائے گی تو یہ کائنات اسی طرح معدوم ہو جائے گی۔ جس طرح “ریل” کے رُک جانے سے پردۂ فلم پر تاریکی چھا جاتی ہے۔ نہ ثریّا کا وجود باقی رہتا ہے نہ مینا کا۔ بس اس کائنات کی حقیقت اسی قدر ہے کہ دکھائی تو دیتی ہے مگر فی الحقیقت موجود نہیں ہے۔
؎ ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
(شاعر: مرزا غالبؔ)
باندھا مجھے جو اُس نے تو چاہی مری نمود
تحریر کر دیا سرِ دیوانِ ہست و بود
جب خالقِ کائنات نے میرا مضمونِ شعر باندھا (یعنی جب مجھے پیدا کیا) تو اس میں میرے ظہور کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ اس نے کائنات کے دیوان (اشعار کا مجموعہ) میں مجھے سرِ فہرست تحریر کر دیا۔ جس طرح دیوان مختلف نظموں، شعروں وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے اُسی طرح یہ کائنات مختلف اشیا و مخلوقات پر مشتمل ہے اور اس میں انسان اشرف المخلوقات ہے، مخلوقات میں سرِ فہرست ہے۔
باندھا: یہ لفظ مضمون کی رعایت سے لائے ہیں جو پہلے شعر میں ہے، مطلب پیدا کیا۔ یعنی خدا نے مجھ کو اس لیے اپنی آپ سے جدا کیا کہ وہ میری نمود چاہتا تھا۔
گوہر کو مُشتِ خاک میں رہنا پسند ہے
بندش اگرچہ سُست ہے، مضموں بلند ہے
گو میری پاک اور منزّہ روح کو مٹی کے جسم میں قید کر دیا گیا ہے۔ میرا ظاہری وجود بہت ارزاں اور کم قیمت ہے لیکن اِس میں مقید روح بہت قیمتی ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے نایاب موتیوں کا مسکن خاک ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے بہت بلند درجہ رکھتے ہیں۔
اقبالؔ نے ان تین شعروں میں رعایتِ لفظی کا کمال دکھا دیا ہے۔ مضمون کی رعایت سے ناظم، باندھنا، تحریر، دیوان اور بندش وغیرہ کتنے ہی لفظ آگئے ہیں۔ اس پر مستزاد بندش کا سست ہونا اور مضمون کی بلندی ہے۔
؏ بندش اگرچہ سُست ہے، مضموں بلند ہے
اِس مصرع کے دو مفہوم ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔
- شاعری کی اصطلاح میں اگر مصرع کے الفاظ موزوں نہ ہوں یا اُن سے مطلب ادا نہ ہو سکے تو کہتے ہیں کہ اس مصرع کی بندش سُست ہے۔
- دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ انسان کی تخلیق پائیدار نہیں ہے لیکن انسان اپنی ذات کے اعتبار سے بہت بلند ہے۔
واضح ہو کہ ان تین مسلسل اشعار میں اقبالؔ نے اپنی شاعرانہ قوت کا کمال دکھایا ہے یعنی استعارات اور کنایات کا ڈھیر لگا دیا ہے۔
چشمِ غلَط نِگر کا یہ سارا قصور ہے
عالم ظہورِ جلوۂ ذوقِ شعور ہے
انسان کی اس بلندی کے باوجود اس کی غلط بیں نگاہ نے اُسے غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ در اصل یہ سارا قصور غلط دیکھنے والی آنکھ کا ہے جو مخلوقات وغیرہ میں امتیاز کرتی ہے، ورنہ یہ ساری کائنات فہم و شعور کے ذوق کے جلوہ کے ظاہر ہونے کی کیفیت ہے۔ وحدت الوجود ہی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے یعنی انسان غور و فکر سے کام لے تو اسے کائنات میں صرف اسی خالق کا وجود نظر آئے گا۔
چشمِ غلط نگر: سے مراد یہ ہے کہ انسان حقیقت سے آگاہ نہیں ہے۔ ورنہ یہ عالم ذراتِ مادی کی کھیل نہیں ہے بلکہ جلوۂ ذوقِ شعور کا ظہور ہے یعنی عالم کی حقیقت یہ ہے کہ افراد اپنے ذاتی شعور کا اظہار چاہتے ہیں۔ اس ذوق کی تسکین کے لیے خدا نے یہ عالم بنایا ہے۔ لیکن انسان عموماً غلط نگر ہیں یعنی اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اگر وہ اس حقیقت سے اگاہ ہوتے تو دنیا میں فتنہ و فساد کرنے کی بجائے اپنے شعور کی تکمیل کرتے۔
یہ سلسلہ زمان و مکاں کا، کمند ہے
طوقِ گلُوئے حُسنِ تماشا پسند ہے
زمان و مکان کا سلسلہ کمند ہے: یعنی انسان زمان و مکان کی قید میں ہے، اسی قید کو طوق سے تعبیر کیا ہے۔
طوقِ گُلوئے حُسنِ تماشا پسند ہے: یعنی حُسنِ مطلق نے (جو تماشا پسند ہے) زمان و مکان کو طوقِ گُلو بنا دیا ہے۔ حُسنِ مطلق سے خدا مراد ہے۔ تماشا پسند اس حُسنِ مطلق یا خدا کی صفت ہے۔ تصوف کی رو سے خدا اپنی مخلوقات میں اپنا جلوہ دیکھ رہا ہے، اس لیے اسے تماشا پسند تعبیر کیا ہے۔ یعنی کائنات در اصل وہ آئینہ ہے جس میں حُسن (خدا) اپنا تماشا (جلوہ) دیکھ رہا ہے۔
منزل کا اشتیاق ہے، گم کردہ راہ ہوں
اے شمع! مَیں اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں
اگرچہ مجھے بحیثیتِ انسان اپنی منزل تک پہنچنے کا شوق ہے (ہر روح کی آخری منزل یہ ہے کہ وہ اپنی اصل سے وابستہ ہوجائے) لیکن میں اپنے راستے سے بھٹک چکا ہوں اور میں اپنی نگاہوں کے دھوکے میں آگیا ہوں جنہوں نے حقیقت کو میری نگاہوں سے اوجھل کر رکھا ہے۔ میں نظر کے دھوکے میں مبتلا ہونے کے باعث مخلوقات کو کچھ سے کچھ سمجھ رہا ہوں۔ اگر اس دھوکے میں مبتلا نہ ہوتا تو اس حقیقتِ حال کو پا لیتا۔
منزل کا اشتیاق ہے: منزل سے مراد وصال ہے، ہر روح کی آخری منزل یہ ہے کہ وہ اپنی اصل سے وابستہ ہوجائے۔ یہ مضمون مرشدِ رومیؒ کے اس شعر سے ماخوذ ہے:-
؎ ہر کسے کہ دُور ماند از اصل خویش
باز جو ید روزگارِ وصل خویش
اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں: یعنی مجھے دھوکا لگا ہوا ہے کہ میں اپنے آپ کو اس سے جدا سمجھتا ہوں یا اپنے وجود کو مستقل بالذات سمجھتا ہوں
اے شمع! میں اپنی منزلِ مقصود کا مشتاق ہوں اور اس دنیا میں میری کیفیت ایک گم کردہ راہ مسافر کی سی ہے۔ میں گم کردہ راہ کیوں ہوں؟ اس لیے کہ اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں۔ سبحان اللہ! اقبالؔ نے ایک مصرعہ میں پوری انسانی زندگی کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص بلاشبہ “اسیر فریبِ نگاہ” ہے اور نگاہ کی سب سے بڑی آفت عورت ہے اور کے حصول کے لیے زر اور زمین کی ضرورت لاحق ہوتی ہے اور دنیا انہی تین برکاتِ عالیہ سے عبارت ہے۔ سارے فتنے انہی کی بدولت پیدا ہوتے ہیں۔
اقبالؔ کہتے ہیں کہ اے شمع! میں اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں اور اسی لیے زن، زر اور زمین کی محبت میں گرفتار ہوں، یا ان اشیائے کائنات کو اپنے سے غیر تصور کر کے ان کے حصول میں کوشاں ہوں یا من و تُو کے امتیاز میں مبتلا ہوں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں خود ہی صیاد ہوں اور خود ہی وہ طائر ہوں جو بامِ حرم پر بیٹھا ہوا ہو، خود ہی عاشق ہوں خود ہی معشوق ہوں، خود ہی ناز ہوں خؤد ہی نیاز ہوں۔۔ آخر میں کہتے ہیں کہ مصلحتِ وقت یہی ہے کہ اب خاموش ہو جاؤں مبادا میرے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو جائے جو چوتھی صدی ہجری میں حسین بن منصور حلاج کے ساتھ ہوا تھا۔
صیّاد آپ، حلقۂ دامِ ستم بھی آپ
بامِ حرم بھی، طائرِ بامِ حرم بھی آپ!
وہ حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ ہر وجود کی اصل ایک ہے۔ شکاری بھی وہی ہے، ظلم کے جال کا حلقہ بھی وہی ہے، کعبے کی چھت بھی وہی اور اس چھت پر بیٹھا ہوا پرندہ بھی وہی ہے۔
(فلسفۂ وحدت الوجود کا مضمون نئے استعارے میں)
مَیں حُسن ہوں کہ عشقِ سراپا گداز ہوں
کھُلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں
بہت کچھ غور و فکر کرنے کے باوجود یہ بات سمجھ میں نہ آ سکی کہ اِس دنیا میں میری حقیقت کیا ہے؟ میں حُسن ہوں یا جسم و جان کو پگھلا دینے والا عشق۔ میں محبوب ہوں یا میری حثیت ایک عاشق کی سی ہے؟!
”ناز“ کنایہ ہے معشوق سے اور ”نیاز“ کنایہ ہے عاشق سے۔
ہاں، آشنائے لب ہو نہ رازِ کُہن کہیں
پھر چھِڑ نہ جائے قصّۂ دار و رَسن کہیں
اسی بنا پر مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ میرے ہونٹ اور زبان کہیں پھر وہی پرانا راز نہ کہہ دیں جس کے بعد پھانسی اور موت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اشارہ حسین بن منصور حلاج کی طرف ہے جس نے وحدت الوجودی نظریات کے باعث مستی میں ”انا الحق“ یعنی ”میں خدا ہوں“ کا نعرہ لگایا اور اس کی بنا پر اسے سولی پر لٹکا دیا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے ازل کے رازوں سے پردہ اُٹھا دیا تو میرا انجام بھی وہی ہوگا جو منصور بن حلّاج کا ”انا الحق“ کہنے پر ہوا تھا۔
رازِ کہن کنایہ ہے حسین ابن منصور حلاج کے قول ”انا الحق“ سے۔
رازِ کہن کہیں آشنائے لب نہ ہو جائے: یعنی حلاج کا قول میری زبان پر نہ آ جائے۔
قصۂ دار و رسن: یہ کنایہ ہے حسین ابن منصور حلاج کے قتل سے۔ اِس شعر میں تلمیح ہے اس قصّہ کی طرف کہ حسین ابن منصور نے مستی میں انا الحق کہہ دیا تھا یعنی میں خدا ہوں، اس پر اس کی تکفیر ہوئی اور اسے سولی پر چڑھا دیا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ سچی بات تو یہی ہے کہ حق مجھ میں پوشیدہ ہے لیکن میں انا الحق اس لیے نہیں کہتا کہ وہ پرانہ قصّۂ دار و رسن پھر تازہ نہ ہو جائے۔
نظم ”شمع“ پر تبصرہ
- خیالات کی بلندی کے اعتبار سے اس سے زیادہ مشکل نظم ساری کتاب میں نہیں ہے۔
- اِس نظم میں اقبالؔ نے وحدۃ الوجود کا فلسفہ پیش کیا ہے۔
- اس کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تصوّف کا مذاق ابتدا ہی سے اقبالؔ کی طبیعت میں موجود تھا۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ رنگ پختہ تر ہوتا چلا گیا۔
- اس نظم میں اقبالؔ نے شمع کے ساتھ اپنا موازنہ کیا ہے۔ اندازِ بیاں بالکل غالبؔ کا سا ہے۔ وہی فارسی تراکیب، وہی بندش، وہی مضمون آفرینی، وہی فلسفہ طرازی۔
- اقبالؔ نے اس نظم میں وحدۃ الوجود کی وہ تعبیر پیش کی ہے جو شیخِ اکبر حضرت ابنِ عربیؒ کی تصانیف میں پائی جاتی ہے۔ یعنی:-
؎ صیّاد آپ حلقۂ داستم بھی آپ
بامِ حرم بھی، طائرِ بامِ حرم بھی آپ
یہ وحدت الوجود کی وہ شکل ہے جس میں حُسن اور عشق۔۔ ناز اور نیاز۔۔ دونوں میں کوئی مغائرت نہیں ہوتی، جیسا کہ غالبؔ نے لکھا ہے:-
؎ اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
آگے چل کر یعنی بالِ جبریل کے زمانہ میں اقبالؔ نے اس تعبیر کو ترک کر کے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تعبیر کو اختیار کر لیا تھا۔ جس کی رو سے حُسن اور عاشق (خالق اور مخلوق) میں مغائرت (عدم مطابقت) ہے۔ اس کی مختصر تشریح یہ ہے:-
(ا) ابنِ عربیؒ تو خدا کے علاوہ کسی چیز کا وجود تسلیم نہیں کرتے۔ کائنات کا وجود موہوم (وہمی / فرضی / خیالی) ہے۔
(ب) حضرت مجددؒ مخلوقات کا وجود تسلیم نہیں کرتے ہیں لیکن یہ وجودِ ظلّی ہے۔ خدا کے سامنے مخلوقات کے وجود کی کوئی حقیقت نہیں ہے جس طرح دن کے وقت ستارے بھی موجود ہوتے ہیں لیکن آفتاب کے سامنے ان کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔ یعنی نظر نہیں آتے۔ اسی طرح مخلوقات بھی ظلّی طور پر موجود ہیں لیکن خدا کے سامنے ہیچ ہیں۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)