”کبھی اے حقیقتِ مُنتظر!“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
غزل ”کبھی اے حقیقتِ مُنتظر!“ بانگِ درا کی سب سے زیادہ مشہور و معروف غزل ہے، لیکن اس کی شہرت کا باعث یہ نہیں ہے کہ قوم نے اس کے مفہوم سے آشنا ہو کر اس کو قبولِ عام کی سنَد عطا کر دی، بلکہ اس کا مطلع اور مقطع (پہلا اور آخری شعر) بدقسمتی سے قوّالوں کو پسند آ گیا اور انہوں نے اس غزل کو پشاور سے لے کر کلکتہ تک۔۔۔ ہر محفل میں اور ہر درگاہ میں گانا شروع کر دیا۔ میں نے 1905ء میں اس غزل کو سب سے پہلے ایک قوّال ہی کی زبان سے سنا تھا، جو ’منتظَر‘ کو ’منتظِر‘ الاپ رہا تھا۔ اس کے باوجود سامعین اپنا سر دھن رہے تھے، کیونکہ آج کے مسلمانوں کا مقصدِ حیات سر دھننا ہے، نہ کہ علم حاصل کرنا۔ اب میں یہ واضح کر دُوں کہ قوّالوں کو یہ غزل کیوں پسند آ گئی؟ وجہ یہ ہے کہ اس غزل میں تصوّف کی زبردست چاشنی موجود ہے، اور خصوصاً یہ الفاظ تو بہت دِلکش ہیں؛ حقیقت اور مجاز، آئینہ اور آئینہ ساز، سوز اور گداز، غزنوی اور ایّاز، صنم آشنا اور نماز۔ یو-پی (بھارت) کے ایک شاعر جس کا نام مجھے اب یاد نہیں رہا، اسی زمانہ میں اس کے جواب میں ایک غزل لکھی تھی، اُس غزل کا چراغ تو آسمان کے سامنے کیا جلتا، ہاں! قوالوں نے دونوں غزلوں کو ترکیب دے کر ایک معجونِ مرکّب ضرور تیار کر لی تھی، اس غزل کا صرف ایک شعر یاد رہ گیا ہے:-
؎ مرا سجدہ سہو میں پڑ گیا، اب اسے قضا کہوں یا ادا
تری یاد نے یہ غضب کیا، کہ ستایا آ کے نماز نے
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
غزل ”کبھی اے حقیقتِ مُنتظر!“ کی تشریح
کبھی اے حقیقتِ منتظَر! نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
زیرِ تشریح شعر میں میں ربِ ذوالجلال کو خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ:-
اے حقیقتِ منتظر! اے مالکِ حقیقی! تُو نے خود کو ابتدائے آفرینش سے حجاب میں چھپا رکھا ہے۔ کبھی مادی لباس میں بھی اپنا جلوہ دکھا، کیونکہ میری عجز و انکسار سے بھری ہوئی پیشانی میں ہزاروں سجدے بے قرار ہو رہے ہیں۔ اے محبوبِ حقیقی! تیرے حُسن کا جلوہ یوں تو کائنات کے گوناگوں نظاروں میں دکھائی دے رہا ہے اور میں تجھے سجدہ کر بھی رہا ہوں، لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ تُو کسی مادی شکل میں میرے سامنے آ جائے اور میں ان آنکھوں سے تیرا دیدار کروں۔ میں تیرے دیدار کے لیے مُدّتوں سے ترس رہا ہوں، سامنے آ جا تاکہ میں تیرے قدموں میں گر کر سجدہ کروں اور کیے جاؤں
”حقیقت“ فلسفہ اور تصوّف، دونوں کی اصطلاح ہے اور بہت وسیع مفہوم کی حامل ہے۔ یہاں اس سے محبوب یا ذاتِ خداوندی مراد ہے۔ حقیقت کے لغوی معنی ہیں وہ ذات جسے فنا نہ ہو، لباسِ مجاز سے مادی شکل مراد ہے جو حواسِ خمسہ سے محسوس ہو سکے۔
طرَب آشنائے خروش ہو، تُو نَوا ہے محرمِ گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھُپا ہوا ہو سکوتِ پردۂ ساز میں
اے مخاطب! تُو شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا بن۔ تُو آواز (نوا) ہے، کان سے دوستی پیدا کر۔ یعنی تجھے تو اس عالمِ رنگ و بُو کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہونا چاہیے کہ تیرا وجود ایک ایسی صدا کی مانند ہے جس کی رسائی عام لوگوں کی سماعت تک ہو۔ بھلا وہ بھی کوئی راگ (سُرُود) ہے جو ساز کے پردے کی خاموشی (سُکُوت پردۂ ساز) میں چھُپا ہوا ہو؟ عشقِ حقیقی نے تجھ میں حیرت انگیز کمالات بھر دیے ہیں۔ تُو اپنے جوہروں کو دِل ہی میں نہ چھُپائے رکھ بلکہ زمانے پر ظاہر کر کے لوگوں کو زندگی کا پیغام دے۔
اے مسلمان! تُو اپنے عشق کی بدولت دنیا میں ہنگامہ برپا کر دے۔ تیرے سینے میں قرآن (نوا) مخفی ہے، اُسے دنیا پر ظاہر کر دے۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تُو اپنی خودی کو دنیا پر آشکار کر دے۔ اللہ نے یہ جوہرِ خودی (سُرُود) اس لیے عطا نہیں کیا کہ ساز (شخصیت) کے پردوں میں چھپا رہے۔ بات بھی سچّی ہے کہ جو نغمہ ساز میں کے پردوں میں پوشیدہ ہے دنیا اس کی کوئی قدر نہیں کر سکتی۔
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
اے مسلمان! تُو اپنا آئینہ ٹھیس اور چوٹ سے بچا بچا کے نہ رکھ، کیونکہ یہ ایسا آئینہ ہے کہ اگر ٹُوٹ جائے تو آئینہ بنانے والے کی نظروں میں اور زیادہ پیارا اور پسندیدہ ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ تُو اپنے دِل کو عشق کی بلاؤں اور مصیبتوں سے چھپا چھپا کر نہ رکھ۔ سچّے عشق کے دوران میں دِل کو جو تکلیف اور صدمہ پہنچتا ہے اور اس سے دِل ٹوٹ جاتا ہے، تُو اسے اپنے حق میں مبارک فال سمجھ کیونکہ جب خدا کے عشق میں دِل کا آئنینہ چُور چُور ہو جاتا ہے تو وہ اسے اپنا پیارا جان کر اس پر فضل و احسان اور لطف و کرم کا مینہ برسا دیتا ہے۔ چنانچہ تُو اپنے دِل کو عشق کی دستبرد سے محفوظ مت کر۔ یہ وہ آئینہ ہے کہ جس قدر شکستہ ہو گا، اُسی قدر خدا کی نظروں میں محبوب اور قیمتی ہو گا۔ یعنی تیرا دِل خدا کے عشق میں جس قدر پامال ہو گا، اُسی قدر سرفراز ہو گا۔ اگر ثبوت درکار ہو تو سرخیل عشاق حضرت شیخ ہجویری المعروف ”داتا گنج بخش“ کی زندگی کا مطالعہ کر لو۔ ان کی وفات کو نو سو سال سے زائد ہو گئے ہیں لیکن رجوع خلائق، یعنی دِلکشی کا وہی عالم ہے۔
تُو اپنے دِل کو عشق کی بلاؤں اور مصیبتوں سے چھپا چھپا کر نہ رکھ۔ سچّے عشق کے دوران میں دِل کو جو تکلیف اور صدمہ پہنچتا ہے اور اس سے دِل ٹوٹ جاتا ہے، تُو اسے اپنے حق میں مبارک فال سمجھ کیونکہ جب خدا کے عشق میں دِل کا آئنینہ چُور چُور ہو جاتا ہے تو وہ اسے اپنا پیارا جان کر اس پر فضل و احسان اور لطف و کرم کا مینہ برسا دیتا ہے۔ چنانچہ تُو اپنے دِل کو عشق کی دستبرد سے محفوظ مت کر۔ یہ وہ آئینہ ہے کہ جس قدر شکستہ ہو گا، اُسی قدر خدا کی نظروں میں محبوب اور قیمتی ہو گا۔ یعنی تیرا دِل خدا کے عشق میں جس قدر پامال ہو گا، اُسی قدر سرفراز ہو گا۔
دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اَثرِ کہن
نہ تری حکایتِ سوز میں، نہ مری حدیثِ گداز میں
شمع کا طواف کرتے ہوئے پروانے نے کہا کہ اے شمع! وہ پرانا اثر (اثرِ کہن) نہ تو اب تیرے جلنے کی کہانی (حکایتِ سوز) میں موجود ہے اور نہ میرے پگھلنے اور جل مرنے کی بات (حدیثِ گُداز) میں ہے۔
اس شعر میں اقبالؔ نے مسلمانوں کی عام دینی بے حسی کا نقشہ کھینچا ہے۔ جب مسلمان کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو اُن کا دِل خود ان سے یہ کہتا ہے کہ نہ ہندیوں میں اس مقامِ مقدس کی حفاظت کا جذبہ پایا کاتا ہے، نہ حجازیوں میں۔ طواف بدَستُور جاری ہے لیکن طواف کی روح فنا ہو چکی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ”شمع“ سے دینی پیشوا مراد لی جائے اور ”کرمکِ شمع“ سے عوام مراد لیے جائیں، یعنی نہ خود اس میں اسلام کا رنگ پایا جاتا ہے، نہ عوام میں۔ نہ زمانۂ قدیم جیسے پیشوا اور مرشد نظر آتے ہیں، نہ جاں نثار مرید۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قوم عشقِ الہٰی کے جذبہ سے خالی ہو گئی ہے۔
نہ کہیں جہاں میں اماں مِلی، جو اماں مِلی تو کہاں مِلی
مرے جُرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
اے مولائے کائنات! میرے تباہ و برباد کرنے والے جرم و گناہ (جرمِ خانہ خراب) کو دنیا میں کہیں پناہ (اماں) نہ ملی اور اگر ملی بھی تو صرف تیری رحمت کے دامن میں جو گناہ گار بندے پر کرم کر کے اس کے جرم و خطا بخش دیتی ہے۔ یعنی انسان سراسر گناہوں سے آلودہ ہے، اگر خداوندِ کریم اس کے گناہ معاف کر کے اسے اپنے دامنِ کرم میں پناہ نہ دے، تو جہاں میں کہیں پناہ نہیں مِل سکتی۔
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں
اب نہ عشق میں وہ پہلا سا سوز و ساز، تڑپ، حرارت اور جوش و خروش باقی رہا۔۔۔ نہ حُسن میں وہ شوخی و دِلبری اور ناز و ادا۔۔۔ نہ محمود غزنوی کا دِل اپنے محبوب ایاز کے عشق میں تڑپتا ہے اور نہ ایاز کی زلف میں وہ پیچ و خم اور حُسن و دِلکشی موجود ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمان پستی اور زوال کے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں۔ نہ ان کے رہنماؤں میں پُر خلوص ہنگامہ آرائی ہے اور نہ عوام میں ایثار و قربانی کا جذبہ۔ (ایاز: محمود غزنوی کا ایک غلام جو صوبہ پنجاب میں گورنر بھی رہا۔ بعض روایات میں اُسے محمود غزنوی کا عاشق اور محبوب بھی کہا گیا ہے)
جو میں سر بسجدہ ہُوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنَم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں
اگر میں نے کبھی سجدہ کیا تو زمین سے یہ آواز آنے لگی کہ تُو تو بتوں کا شیدا (صنم آشنا) ہے، تُو تو مادی اور باطل قوتوں کی غلامی میں گرفتار ہے، تجھے نماز کے اِس ظاہری دِکھاوے سے کیا حاصل ہوگا؟! مراد یہ کہ جب تک انسان اپنے دِل کو غیر اللہ سے پاک نہ کر لے اور اسے خدا کے سوا کسی دوسرے سے عشق و محبت نہ ہو، اس وقت تک نہ تو اس کی نماز کو صحیح معنوں میں نماز کہہ سکتے ہیں اور نہ اسے یوں سجدے پر سجدے کرنے سے کسی قسم کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ گویا اخلاص کے بغیر کوئی بھی عمل اپنے نتائج پیدا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج نماز نہ تو فحاشی سے روکتی ہے اور نہ بغاوت سے باز رکھ سکتی ہے۔ اس لیے کہ ہم خلوص سے نماز ادا ہی نہیں کرتے۔
جب تک انسان اپنے دِل کو غیر اللہ کی محبت سے پاک نہ کرے، اس وقت تک نماز پڑھنے سے کوئی روحانی فائدہ مرتّب نہیں ہو سکتا۔
جب کبھی میں یہ شعر پڑھتا ہوں، تو مجھے (پروفیسر یوسف سلیم چشتی کو) سری کرِشن کا یہ قول یاد آ جاتا ہے کہ:-
”اے ارجن! میں تو صرف ان لوگوں کے دِلوں میں براجمان ہوتا ہوں جو میرے سوا کسی غیر سے محبت نہیں کرتے۔ اگر تُو مجھے پانا چاہتا ہے تو میرے سوا کسی کا دھیان مت کر، کسی سے دِل مت لگا۔ اپنی پوری شخصیت مجھ پر نثار کر دے۔ میری اطاعت کر اور مجھ میں فنا ہو جا۔ میں تجھے وچن دیتا ہوں کہ اگر تُو میرا ہو جائے تو میں تیرا ہو جاؤں گا“
(بھگوَت گیتا، ادھیائے 187، اشلوک 65)
ماشاءاللہ آپ نے بہت خوب صورت انداز میں اقبال کی اس غزل کے مفہوم سے آشنا کیا اللّٰہ آپ کو بہتر جزا دے
آمین۔ جزاک اللہ خیرا محترم