”میں اور تُو“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”میں اور تُو“ بانگِ درا کی مشکل نظموں میں سے ایک ہے۔ مضامین کی بلندی کے علاوہ اس میں شاعرانہ خوبیاں بدرجہ اُتّم موجود ہیں۔ بندش کی چُستی، الفاظ کا اِنتخاب اور صوتی ہم آہنگی اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی یہ نظم اقبالؔ کی قادر الکلامی کا ایک بہت عمدہ نمونہ ہے۔ اس کے عنوان میں بھی ندرت پائی جاتی ہے۔ ”میں“ سے شاعر اور ”تُو“ سے نظم پڑھنے والا مردا ہے۔ میں اور تُو سے پوری قوم بھی مراد ہوسکتی ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
علامہ اقبال نے یہ نظم ”انجمن حمایتِ اسلام، لاہور“ کے ایک جسلے منعقدہ 1918ء میں پڑھی تھی۔ اس میں اشعار کی تعداد 12 تھی۔ نظرِثانی میں تین اشعار حذف کر دیے گئے۔ (اِس نظم میں عام مسلمان سے خطاب کیا گیا ہے)
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
نظم ”میں اور تُو“ کی تشریح
نہ سلیقہ مجھ میں کلیِم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاکِ جادوئے سامری، تُو قتیلِ شیوۂ آزری
نہ مجھ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ تعالی سے ملاقات کی آرزو پائی جاتی ہے، نہ میں اُن کی طرح اپنی گمراہ قوم کی رہنمائی کا فرض انجام دے سکتا ہوں اور نہ تجھ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان پایا جاتا ہے، وہی ابراہیمؑ جنہوں نے اللہ تعالی سے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے بُت پرستوں کے بُت توڑے، آتشِ نمرُود میں چھلانگ لگائی، اللہ تعالی کی راہ میں اپنے وطن سے ہجرت کی، اللہ تعالی کا گھر خانہ کعبہ تعمیر کیا اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لختِ جگر کو قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے۔
اگر میں سامری کا پیرو ہوں تو تُو بھی آزر کی طرح سیدھے راستے سے ہٹ کر بُت گری اور بُت پرستی کے طریقے اختیار کیے ہوئے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پوری قوم اسلام سے منحرف ہوچکی ہے یعنی تعلیماتِ اسلام سے منہ پھیر چکی ہے۔
آزر: تارح یا آزر کے متعلق بعض علما نے فرمایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تھا، بعض نے فرمایا کہ والد نہیں چچا کا نام تھا والد کا نام تارخ تھا جو مسلمان تھے اور بعض نے فرمایا کہ آزر بُت کا نام تھا۔ ان اشعار میں آزری سے بُت پرستی مُراد ہے، ویکی پیڈیا
سامری: اس شخص کا اصلی نام موسیٰ ابن ظفر تھا۔ لیکن وہ اپنے قبیلہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کر نے کے لیے سونے کا بچھڑا بنایا تھا جِس سے آواز نکلتی تھی۔ بنی اسرائیل مصر میں رہ کر چونکہ گوسالہ پرستی کے مرض میں مبتلا رہ چکے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی ان کے سامنے ایک سنہری رنگ کا بولتا ہوا گوسالہ آیا اور پھر سامری نے نہایت ہوشیاری سے ان کو یہ باور کرایا کہ اصل میں یہی تمھارا خدا ہے جو تمھیں مصر سے نکال لایا ہے، موسیٰؑ تو نہ جانے بھول کر کہاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ تو بنی اسرائیل اس کے سامنے جھک گئے اور اس کے سامنے قربان گاہ بنا کر قربانیاں بھی پیش کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ لفظ ”سامری“ ساحر کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ قرآنِ پاک میں یہ نام تین بار استعمال ہوا سورہ طٰہٰ کی آیات 85، 87 اور 95 میں۔
میں نوائے سوختہ در گُلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو
میں حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری
میری حالت اس ناکام اور نامراد عاشق کی سی ہے جو عرضِ مطلب یا حالِ دِل بیان کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا، بالکل اُس بُلبُل کی طرح جس کی آواز اس کے گلے میں خشک ہوگئی ہو اور وہ نغمے نہ گاسکتا ہو ۔۔ جبکہ تُو مسلسل شِکستوں اور مصیبتوں کی وجہ سے نیم جان ہوچکا ہے، بالکل اُس پھول کی طرح جس کا رنگ بھی اُڑ چکا ہو اور خوشبو بھی رخصت ہوچکی ہو اور یہ دونوں چیزیں نہ ہوں تو پھول بیکار ہوجاتا ہے اور اُس کی رعنائی و دلآویزی باقی نہیں رہتی۔۔ ۔ میرے پاس رنج و غم کی داستان کے علاوہ اور کچھ نہیں اور تُو اپنی بد نصیبی اور محرومی کا رونا روتا رہتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ پوری قوم تباہ ہوچکی ہے۔
مرا عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفَسِ عدم
ترا دل حرم، گِرَوِ عجم، ترا دیں خریدۂ کافری
میری کیفیت یہ ہے کہ مجھے عیش میں کوئی لطف محسوس نہیں ہوتا اور میری خوبی بھی دنیا کو برائی نظر آتی ہے۔ مختصر یہ کہ میرا وجود اور عدم، دونوں یکساں ہیں (یعنی میرا ہونا اور نہ ہونا برابر ہیں) اور تیری حالت یہ ہے کہ تیرا دِل جو دراصل حرم تھا، خانہ کعبہ کی طرح پاکیزہ تھا، وہ کُفر کا غلام ہوچکا ہے۔۔ “گرو عجم” یعنی تیرا دِل غیر اسلامی خیالات میں گرفتار ہوچکا ہے اور تیرا ایمان کافرانہ طریقوں کے ہاتھ بِک چکا ہے۔۔ مراد ہے کہ مسلمانوں نے اب اسلامی خیالات و عقائد کو چھوڑ کر کافرانہ روِش اختیار کرلی ہے۔
دمِ زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی
غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری
اے مسلمان! تیری دنیاوی زندگی کو ہمیشگی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ دنیاوی زندگی محض کھیل تماشا ہے، چند روزہ ہے۔ اگر تُو مرنے کا غم کرلے گا۔۔ یہ غم تیرے حق میں زہر بن جائے گا۔ تیری زندگی بے کار ہوجائے گی۔ اس لیے زندگی کے گزرنے پر غم نہ کر۔ اور غم کا زہر مت کھا بلکہ ہر حال میں اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہ۔ کیونکہ مسلمان کا شیوہ یہی ہے کہ وہ مشیتِ ایزدی کے سامنے سامنے سر تسلیمِ خم کرتا ہے۔
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری
اگر تیرے دِل میں عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری موجود ہے تو پھر یہ پرواہ مت کر کہ تُو دولت مند ہے یا مفلس ہے۔ کیونکہ کامیابی کے لیے دولت ضروری نہیں ہے۔ کیا تجھے علم نہیں ہے کہ حضرت علیؑ جو کی روٹی کھاتے تھے لیکن عشقِ رسول ﷺ کی بدولت ان میں یہ طاقت پیدا ہوگئی کہ انہوں نے خیبر کا دروازہ اپنی قوّتِ بازو سے اُکھیڑ دیا تھا؟ یعنی کفر کا مقابلہ کرنے کے لیے دولت نہیں بلکہ عِشق درکار ہے۔
کوئی ایسی طرزِ طواف تُو مجھے اے چراغِ حرم بتا!
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری
اے کعبے کے چراغ (رہمنائے قوم)! تُو مسلمانوں کو ایسی زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کہ ان کے دِلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی اگ بھڑکنے لگے اور وہ سراپا آگ بن جائیں
اے کعبے کے چراغ! تُو مجھے طواف کرنے کا کوئی ایسا طریقہ بتا کہ تیرے دیوانے اور شیدائی میں پھر سے آگ میں رہنے والے کیڑے کی سی عادت (یعنی سرشتِ سمندری) پیدا ہوجائے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان پھر سے مشکلات میں جینا، ان کا مقابلہ کرنا اور مشکل حالات کے باوجود آگے بڑھنا سیکھ لیں۔
”سرشتِ سمندری“ سے آتشیں مزاج مراد ہے۔
سمندر: کہا جاتا ہے کہ سمندر (Salamander) وہ کیڑا ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے، آگ میں رہتا ہے۔ اسے “آگ کا کیڑا ” بھی کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ پارسیوں کے آتش کدہ میں مسلسل صدیوں تک آگ روشن رہے تو ایک کیڑا پیدا ہوتا ہے جو آگ ہی میں رہتا ہے اور اگر آگ سے باہر نکال لیا جائے، تو مر جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کیڑا نہیں بلکہ چوہے کی شکل کا ایک جانور پیدا ہوجاتا ہے۔ اس باب میں قولِ رائج یہ ہے کہ یہ ایک غیر معروف چھوٹا سا جانور ہے۔ آتش کدہ یا آگ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
گِلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ’ہَری ہَری‘
اے مسلمانو! تُم نے اسلام کے ساتھ ایسی بے وفائی کہ ہے کہ بظاہر وہ وفا ہے لیکن دراصل جفا ہے یعنی تم زبان سے توحید کا دعویٰ کرتے ہو لیکن تمہارا عمل اس کے خلاف ہے۔
”جفائے وفا نما“ سے ایسی جفا یا بے وفائی مراد ہے جو بظاہر وفا معلوم ہو)۔ تمہاری اِس دو رَنگی سے اسلام کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ اگر میں تمہاری منافقت کی داستان کافروں کا سناؤں تو وہ بھی “ہری ہری” پکار اُٹھیں، یعنی تمہارے طرزِ عمل سے شدید نفرت کا اظہار کریں۔
”ہری ہری“ وِشنُو کا مشہور لقب ہے اور وِشنُو ہندی تریمورتی کا دوسرا رکن ہے۔ ہندو دھرم میں پرماتما (خدا) کے تین رُوپ مانے گئے ہیں: برہما، وِشنُو اور شو۔
اِس شعر کے دوسرے مصرع میں بڑی شانِ بلاغت پائی جاتی ہے۔ اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر میں کسی صنم (بُت) کے سامنے یہ بات بیان کروں کہ اسلام نے مسلمانوں پر کس قدر احسانات کیے لیکن اس کے جواب میں مسلمانوں نے اسلام جیسے پاکیزہ دین کے ساتھ کس قدر بے وفائی کی تو گمان غالب ہے کہ بُت بھی خدا پر ایمان لے آئے گا، اُس خدا پر کہ جِس نے اہلِ دنیا کو اسلام جیسا پاکیزہ دین عطا فرمایا۔
اس کے علاوہ اِس مصرع کے اسلوب میں بڑی دِلکشی پائی جاتی ہے۔ اقبالؔ نے اِس بندش میں ایسی قابلیت صَرف کی ہے کہ جس میں شاعری میں ساحری (سحر زدہ کردینے والا؛ جادوئی) رنگ پیدا ہوگیا ہے۔ صنم (یعنی بُت) جیسا کہ سب جانتے ہیں، ہری (یعنی خدا) کی ضِد ہے۔ اقبالؔ نے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا ہے کہ صنم کو خدا کا پرِستار بنا دیا۔ اِس مصرع کو پڑھ کر بلاشبہ مسلمان کی احسان فراموشی کی تصویر سامنے آجاتی ہے کہ اس کی بے وفائی کی داستان اس قدر عبرت انگیز ہے کہ اِنسان تو کیام اگر پتھر بھی سُن پائے تو کانوں پرا ہاتھ رکھ لے اور ہری میں جو تضادِ معنوی پایا جاتا ہے اُس نے اِس مصرع کو تحسین سے بالا کردیا ہے۔
نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی فطرتِ اسَداللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری
اے مسلمانو! اگر موجودہ زمانے میں کفر یا طاغوتی طاقتیں تمہارے خلاف متّحد ہو کر صف آرا ہوگئی ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔۔ دنیا میں نہ تو کوئی میدان نیا ہے اور نہ ہی مختلف میدانوں میں لڑنے والے لوگ نئے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر جگہ وہی حق و باطل کی آویزش اور کشمکش جاری ہے۔۔ ( اس لیے تم بالکل ہراساں مت ہو ) ذرا دینِ اسلام کی تاریخ تو اُٹھا کر دیکھو۔۔ کیا حضرت علیؑ کے مقابلہ میں مرحب اور عنتر نہیں آئے تھے؟ پس جس طرح عشقِ رسول ﷺ کی بدولت حضرت علیؑ اپنے زمانے کے کافروں پر غالب آئے تھے، اُسی طرح تم بھی غالب آسکتے ہو۔
اسی مضمون کو اقبالؔ نے ایک جگہ یوں باندھا ہے:۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
(حوالہ: بانگِ درا: ارتقا)
کرم اے شہِؐ عَرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
وہ گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری
اب اقبالؔ سرکارِ دو عالم ﷺ سے استمداد (درخواست) کرتے ہیں کہ:-
اے آقائے کائنات ﷺ! اے سرورِ موجودات ﷺ!
اے عرب و عجم (یعنی ساری دنیا) کے بادشاہ ﷺ!
اِس وقت آپ ﷺ کی نگاہِ کرم درکار ہے۔ ذرا پردہ اُٹھا کر تو دیکھیے، آپ ﷺ کے دروازے پر ہم لوگ دست بستہ منتظرِ کرم کھڑے ہوئے ہیں یعنی جو بظاہر آپ ﷺ کے سامنے تو بے شک گدا ہیں لیکن آپ ﷺ سے نسبتِ غلامی کی وجہ سے ان کے اندر یہ شان پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بادشاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔
؏ خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
(حوالہ: بالِ جبریل: جاوید کے نام)
ہم مسلمان آپ ﷺ کے کرم کے انتظار میں ہیں، ہم پر کرم فرمائیے۔ ہم وہ گدا ہیں جنہیں آپ ﷺ نے دماغِ سکندری عطا فرمایا ہے۔ مسلمانوں میں پھر سے پہلے والا اِتحاد و اتفاق اور باطل سے ٹکرانے اور اسے مٹانے کی قوت پیدا ہوجائے۔ علامہ کے نزدیک آپ ﷺ کے تصرفاتِ روحانی کے بغیر مسلمانوں کی ترقی اور عروج ممکن نہیں۔
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی