”بلالؓ“ از علامہ اقبال
فہرست
نظم ”بلالؓ“ تعارف
علامہ اقبال نے بانگِ درا کے پہلے حصہ میں بھی سیدنا بلالؓ کی منقبت میں ایک نظم لکھی ہے، چونکہ انہیں حضرت موصوف سے بہت زیادہ عقیدت تھی اس لیے اس نظم میں، با اندازِ دگر، ان کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اقبالؔ کی عقیدت کا سبب صرف یہ ہے کہ سیدنا بلالؓ اسلام اور بانئ اسلام حضرت محمد ﷺ دونوں ہی کے عاشقِ زار تھے۔ حضرت موصوفؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد مُدتوں تک اس قدر مصائب برداشت کیے کہ راقم الحروف جیسے نقلی مسلمان ایک دن کے لیے بھی ان کی تاب نہیں لا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سکندرِ رومی کا نام تو صرف تاریخوں میں باقی رہ گیا ہے لیکن حضرت بلالؓ کا نام آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
بند نمبر 1
لِکھّا ہے ایک مغربیِ حق شناس نے
اہلِ قلم میں جس کا بہت احترام تھا
یورپ کا ایک عالم جسے حق شناسی (یعنی سچائی کو پہچاننے) میں بڑی مہارت حاصل تھی اور اہلِ قلم اُس کی بہت عزت کرتے تھے، لکھتا ہے کہ:-
جولاں گہِ سکندرِ رومی تھا ایشیا
گردُوں سے بھی بلند تر اُس کا مقام تھا
ایشیا سکندرِ رومی کے لیے جنگ کا میدان (جولانگاہ) بنا، یعنی مقدونیہ میں پیدا ہونے والا سکندر نو عمری میں ہی ایشیا کے مختلف ممالک کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اس کا مقام و مرتبہ آسمان سے بھی زیادہ اونچا تھا۔
تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے
دعویٰ کِیا جو پورس و دارا نے، خام تھا
تاریخِ عالم اس امر کی گواہی دے رہی ہے کہ ہندوستانی بادشاہ پورس اور ایرانی بادشاہ دارا نے اپنی جرأت و ہمت کو جو دعوے کیے تھے، وہ غلط تھے۔ سکندر کے مقابلے میں اُن کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
دنیا کے اُس شہنشہِ انجم سپاہ کو
حیرت سے دیکھتا فلکِ نیل فام تھا
سکندر دنیا میں ایسا بادشاہ ہو گزرا ہے جس کی فوج کی تعداد ستاروں جتنی تھی۔ اسی لیے آسمان تک اِس شخص کو حیرت سے دیکھا کرتا تھا۔
سکندرِ رومی: دنیا کا مشہور فاتح جس نے 328 قبلِ مسیح اربیلہؔ کے مقام پر ایران کے بادشاہ دارا کو اور 327 قبلِ مسیح میں ٹیکسلا کے مقام پر راجہ پورس کو شکست دی تھی۔
آج ایشیا میں اُس کو کوئی جانتا نہیں
تاریخ دان بھی اُسے پہچانتا نہیں
اس کے باوجود صورتِ حال یہ ہے کہ آج ایشیا کے اس عظیم فاتح کو ایشیا میں کوئی بھی نہیں جانتا۔ عام لوگوں کا تو ذکر ہی کیا، تاریخ دان بھی اُس کے کارناموں سے واقف نہیں ہے۔
بند نمبر 2
لیکن بِلالؓ، وہ حبَشی زادۂ حقیر
فطرت تھی جس کی نُورِ نبوّت سے مُستنیر
لیکن وہ بلالؓ، جو ایک معمولی سے حبشی کے بیٹے تھے۔۔ جن کی فطرت نے نبوّت کے نور سے روشنی حاصل کی تھی۔
جس کا امیں ازل سے ہُوا سینۂ بِلالؓ
محکوم اُس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر
جن کا سینہ ازل سے اس اذان کا امانت دار قرار پایا تھا جو بادشاہ سے لے کر فقیر تک پر حکومت کرتی ہے یعنی اذان ہوتی ہے تو کیا بادشاہ اور کیا فقیر۔۔ سب اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، ادب سے سنتے ہیں اور پھر نماز ادا کرتے ہیں۔
ہوتا ہے جس سے اسوَد و احمر میں اختلاط
کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر
وہ اذان جس کی وجہ سے کالے گورے سب آپس میں مِل جاتے ہیں اور غریب امیر کے پہلو میں کھڑا ہو جاتا ہے، سیاہ و سرخ میں باہمی محبت پیدا ہوتی ہے، نسلی امتیاز نہیں رہتا اور جو غریب کو امیر کا ہم پلہ بنادیتی ہے:-
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
(حوالہ: بانگِ درا: شکوہ)
ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز
صدیوں سے سُن رہا ہے جسے گوشِ چرخِ پیر
حضرت بلالؓ کا دِل پگھلا دینے والا نغمہ (اذان) آج تک برقرار ہے جسے یہ بوڑھا آسمان صدیوں سے سُن رہا ہے۔
اقبالؔ! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہُوا، حبَشی کو دوام ہے
اقبالؔ کہتے ہیں کہ غور کرنا چاہیے کہ یہ کس ہستی کا فیضان ہے کہ سکندرِ رومی جیسا عظیم بادشاہ تو مِٹ گیا لیکن بلالِؓ حبشی کو دائمی زندگی حاصل ہو گئی۔
اقبالؔ کہنا چاہتے ہیں کہ سکندر اپنے فتوحات کے باوجود فنا ہو گیا لیکن بلالؓ حبشی عشقِ رسول ﷺ اور اسلام کی برکات کی وجہ سے دائمی (ہمیشہ قائم رہنے والی) شہرت اور ناموَری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور حیاتِ جاوید پا گئے۔
آپؓ کا دِل پگھلا دینے والا نغمہ (اذان) قیامت تک آسمان کی فضاؤں میں گونجتا رہے گا۔
ما شاء اللہ – بہت اچھا ترجمہ کیا ہے آپ نے – جس کی وجہ سے ہم جیسے لوگ بھی ان اشعار کو سمجھنے کے قابل ہو گئے
نوازش محترم۔ جزاک اللہ خیرا