”شبنم اور ستارے“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”شبنم اور ستارے“ میں تاروں کے حوالے سے اس دنیا کے ”دِلکش“ حالات پوچھے گئے ہیں، جس پر شبنم نے اُن کی اُمید کے خلاف اس دنیا کا وہ حال سنایا ہے جو مایوسیوں اور محرومیوں سے پُر ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)
بند نمبر 1
اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
ہر صبح نئے تجھ کو میّسر ہیں نظارے
ایک رات کا ذکر ہے کہ ستاروں نے شبنم سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے شبنم! تُو ہر روز دُنیا میں جاتی ہے اور نئے نئے نظارے دیکھتی ہے۔ (چونکہ شبنم صبح کے وقت گِرتی ہے، پھر پھول بھی نئے کھِلتے ہیں، اس لیے ایسا کہا ہے)
کیا جانیے، تُو کتنے جہاں دیکھ چُکی ہے
جو بن کے مِٹے، اُن کے نشاں دیکھ چُکی ہے
خدا معلوم تُو نے اب تک کتنے جہانوں کا نظارہ کیا ہے اور پھر ایسے جہاں بھی کہ جو آباد ہوئے اور پھر ناگوار حالات کے نتیجے میں صفحۂ ہستی سے مِٹ گئے۔
زُہرہ نے سُنی ہے یہ خبر ایک مَلک سے
انسانوں کی بستی ہے بہت دُور فلَک سے
اے شبنم! زہرہ نے کسی فرشتے سے یہ خبر سنی ہے کہ انسان جس دنیا میں آباد ہیں، وہ آسمان سے کافی فاصلے پر واقع ہے (زہرہ: ایک انتہائی دِلکش اور خوبصورت سیّارہ جو غروبِ آفتاب کے وقت مغربی افق پر نظر آتا ہے۔ مغربی افق سے غروب ہونے کے چند ماہ بعد یہ صبح کے وقت مشرقی افق پر دِکھائی دیتا ہے۔ اسے ناہید اور رقاصۂ فلک بھی کہتے ہیں)
کہہ ہم سے بھی اُس کشورِ دلکش کا فسانہ
گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ
تُو انسانوں کی اس دِلکش سلطنت (کشورِ دِلکش) کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔ اس لیے ذرا ہمیں بھی اُس دِل لبھانے والی دنیا کی داستان سُنا۔ وہی دنیا کہ جس کی محبت کے نغمے چاند گاتا رہتا ہے اور دن رات اس کا طواف کرتا ہے۔ (رات کو چاند طلوع ہوتا ہے تو اُس کی روشنی دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ گویا چاند دنیا ک کی دِلکشی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے)
بند نمبر 2
اے تارو نہ پُوچھو چمَنِستانِ جہاں کی
گُلشن نہیں، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
(اب شبنم ان کی بات کا جواب دیتی ہے) اے ستارو! تم مجھ سے دنیا کے باغ (چمنستانِ جہاں) کے حالات نہ ہی پوچھو تو بہتر ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا ایک باغ نہیں، بلکہ آہ و فغاں کی ایک بستی ہے، یہ آہوں اور سِسکیوں، رنج و الم کا گھر ہے۔
آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر
بے چاری کلی کھِلتی ہے مُرجھانے کی خاطر
وہاں صبح کی ہوا (صبا) آتی ہے تو صرف اس لیے کہ واپس پلٹ جائے، یعنی کچھ دیر چلی اور پھر ختم۔ اسی طرح بیچاری کلی کھِل کر پھول بنتی ہے تو وہ پھول بھی بہت جلد ہی مر جھا جاتا ہے۔ گویا دنیا میں سکون و اطمینان اور ہمیشگی کسی بھی شے کو حاصل نہیں، ہر شے پر موت اور فنا طاری ہے۔
؏ ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
(حوالہ: بانگِ درا: گورستانِ شاہی)
گویا دنیا میں خوشی و مسرّت بہت عارضی ہے۔ انسان جلد ہی دُکھوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
؎ غم بھی گذشتنی ہے، خوشی بھی گذشتنی
کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو
؎ گئے ہیں رنج و غم اے داغؔ! بعدِ مرگ ساتھ اپنے
اگر نکلے تو یہ اپنے رفیقانِ عدم نکلے
؎ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کِدھر جائیں گے؟
کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے
ننھّا سا کوئی شُعلۂ بے سوز کلی ہے
اے ستارو! اس کلی کا احوال تم سے کیا کہوں کہ وہ کس طرح باغ کی آرائش کا سامان بنتی ہے۔ بس یوں سمجھو کہ وہ ایک ایسی چھوٹی سی چنگاری ہے جو سوز و گداز سے محروم ہے ( یعنی شعلۂ بے سوز ہے۔ کلی کے سُرخ رنگ کو شعلہ کہا ہے)
گُل نالۂ بُلبل کی صدا سُن نہیں سکتا
دامن سے مرے موتیوں کو چُن نہیں سکتا
بلبل کی بدقسمتی دیکھو کہ وہ پھول کے عشق میں مبتلا ہو کر دِن رات اس کے پاس بیٹھی آہ و فغاں میں مصروف رہتی ہے، جبکہ پھول سننے کی صلاحیت ہی سے محروم ہے۔ پھول کی مجبوری دیکھو کہ میں (شبنم) موتی بن بن کر اس کے دامن میں گِرتی ہوں، لیکن وہ میرے اِن موتیوں کو سمیٹنے کی قوت ہی نہیں رکھتا۔ (مختلف استعاروں میں انسان کی خوشی و غمی اور بے بسی و بے کسی کی عکاسی کی ہے)
ہیں مُرغِ نواریز گرفتار، غضب ہے
اُگتے ہیں تہِ سایۂ گُل خار، غضب ہے
انسانوں کا سِتم دیکھو کہ باغ میں جس قدر خوش آواز طائر (پرِندے) پائے جاتے ہیں، سب کو گرفتار کر کے پنجرے میں قید کر دیتے ہیں، گویا ان بے چاروں کی خوبی، ان کے حق میں بلائے جان بن گئی ہے۔ پھر فطرت کا ستم یہ ہے کہ جہاں پھول ہے، وہیں کانٹا ہے۔ جہاں پھول توڑا، کانٹا بھی ہاتھ میں چبھ گیا
رہتی ہے سدا نرگسِ بیمار کی تَر آنکھ
دل طالبِ نظّارہ ہے، محرومِ نظر آنکھ
نرگس کی آنکھ ہمیشہ تر رہتی ہے یعنی اس میں آنسو بھرے رہتے ہیں۔ اسے یہ دُکھ ہے کہ اس کا دِل نظارے کا طلبگار ہے، جبکہ آنکھ دیکھنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہے (نرگسِ بیمار: شعراء نرگس کے پھول کو آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں اور ”نرگسِ بیمار“ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ شاعروں کی معشوقہ چونکہ ہر وقت نشہ میں مخمور رہتی ہے اور اس حالت میں آنکھ پورے طور پر نہیں کھُلتی اور یہی کیفیت مریض (بیمار) کی ہوتی ہے کہ ضعف کی وجہ سے آنکھ بھی نیم وا رہتی ہے، اس لیے نرگس کو حُسنِ تعلیل کی بنا پر ”نرگسِ بیمار“ کہنے لگے)
دل سوختۂ گرمیِ فریاد ہے شمشاد
زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد
شمشاد کے درخت کا حال ملاحظہ کرو۔ کہنے کو تو وہ آزاد ہے لیکن اصل میں قیدی (زندانی) ہے؛ اس وجہ سے وہ فریاد کرتا ہے اور فریاد کی گرمی سے اس کا دِل جل گیا ہے (شمشاد کو آزاد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ سدا بہار اور خزاں کی قید سے آزاد ہے۔ اقبالؔ نے تخیّل کی بدولت ”آزادی“ کو ”قید“ کی ضد تصور کر کے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ شمشاد کو کہتے تو آزاد ہیں، لیکن در اصل وہ پابند (قیدی) ہے یعنی حرکت نہیں کر سکتا)
تارے شررِ آہ ہیں انساں کی زباں میں
میں گریۂ گردُوں ہوں گُلستاں کی زباں میں
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دنیا کے لوگ اس قدر گرفتارِ رنج و الم ہیں کہ وہ تاروں کو بھی کسی مصیبت کے مارے ہوئے کی آہوں کے شرارے سمجھتے ہیں اور مجھے (شبنم کو) یہ سمجھتے ہیں کہ میں آسمان کے آنسوؤں کا مجموعہ ہوں یعنی آسمان رات بھر جس قدر روتا ہے، صبح کو سب آنسو، شبنم کی شکل میں، دنیا پر نازل ہو جاتے ہیں
نادانی ہے یہ گِردِ زمیں طوف قمر کا
سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا
یہ جو چاند زمین کے گِرد طواف کرتا ہے، اور سمجھتا ہے کہ یہ طواف اُس کے داغِ جگر کا علاج ہے تو یہ اس کی نادانی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس قسم کے ناگوار حالات کی حامل یہ دنیا اس کے درد کا مداوا نہیں کر سکتی، کیونکہ دنیا کے لوگ تو خود داغِ جگر میں مبتلا ہیں، وہ دوسرے کا مداوا کیا کریں گے (چاند میں جو داغ سا ہوتا ہے، اُسے داغِ جگر کہا ہے)
؎ یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
عاشق ہے تو کسی کا؟ یہ داغِ آرزو ہے؟
(حوالہ: بانگِ درا: چاند)
بنیاد ہے کاشانۂ عالم کی ہوا پر
فریاد کی تصویر ہے قرطاسِ فضا پر
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ محل (کاشانہ) جس کا نام دنیا ہے، اس کی بنیاد محض ہوا پر قائم ہے، یعنی دُنیا کا نظام لائقِ اعتماد نہیں ہے؛ مراد ہے دنیا کی بے ثباتی سے۔ یوں سمجھیے کہ دنیا فضا کے کاغذ (قرطاسِ فضا) پر فریاد کی ایک تصویر ہے۔ (قرطاسِ فضا: سے مراد یہ ہے کہ قدرت نے یہ دنیا نہیں بنائی بلکہ فضا میں آہ و فریاد کی تصویر کھینچ دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا سراسر مصیبت کا گھر ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے ”دنیا جسے کہتے ہیں بلا خانہ ہے، پامال ہے جو عاقل و فرزانہ ہے)