”خطاب بہ جوانانِ اسلام“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
”خطاب بہ جوانانِ اسلام“ ایک قطعہ ہے جو بعض دوسرے قطعات اور مزاجی اشعار کے ساتھ 1914ء میں (یعنی شمع اور شاعر کے دو سال بعد) انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسمہ میں پڑھا گیا۔ اس سال جلسہ اسلامیہ کالج لاہور کے میدان میں حبیبیہ حال کے عین سامنے منعقد ہوا تھا۔ اقبالؔ نے اس کے لیے کوئی خاص نظم نہیں لکھی تھی۔ آخری وقت میں انجمن کے کارکنوں کی طرف سے شدید اصرار ہوا تعو متفرق چیزیں پڑھ دیں۔ ان میں ایک یہ قطعہ بھی تھا۔ گویا یہ ”شمع اور شاعر“ سے پہلے لکھا گیا، اگرچہ مُدّت بعد پڑھا گیا۔ اس میں ان قیمتی کتابوں کا ذکر ہے جو اہلِ یورپ ہمارے ہاں سے خرید کر لے گئے اور ہم اپنے بزرگوں کی اس علمی دولت کی قدر نہ کرسکے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)
تشریح
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
اقبالؔ مسلم نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ:-
اے نوجوان مسلم! کیا بھی تُو نے کبھی اس امر پر بھی غور و خوض کیا ہے کہ وہ کیسا عظیم الشان آسمان تھا کہ تُو جس کے ایک ٹوٹے ہوئے ستارے کی حیثیت رکھتا ہے؟ (یہاں ٹوٹے ہوئے ستارے سے مراد ایسا فرد ہے جو اپنی قوم سے جدا ہوگیا ہو، ایک ایسا شخص جس میں اُس کے عظیم اسلاف کی خوبیاں باقی نہ رہی ہوں)۔۔ یعنی کیا تُو نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ تُو جس قوم کا فرد ہے، وہ کسی زمانہ میں کس قدر عظیم الشان تھی۔
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
اگر تجھے یاد نہیں تو میں بتادیتا ہوں کہ تجھے اُس قوم نے محبت کی گود میں پالا ہے جس نے ایران کے مشہور ساسانی خاندان کے بادشاہ دارا کا تاج اپنے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔
”دارا“ یا Darius III قدیم ایران کا مشہور بادشاہ، جسے سکندر (Alexander) نے 331 قبلِ مسیح میں شکست دی۔ ”تاجِ سرِ دارا“ سے مملکتِ ایران مراد ہے، جسے مسلمانوں نے حضرت عمر فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں فتح کیا تھا۔
جنگِ قادسیہ کی لڑائی مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ہوئی۔ عرب مسلمانوں کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص اور ایرانی فوج کا سراد رُستم تھا۔ اس میں مسلمانوں کی فتح ہوئی اور ایران مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔
(حوالہ: ویکی پیڈیا)
”اگر آپ مجھ سے پُوچھیں کہ تاریخِ اسلام کا اہم ترین واقعہ کون سا ہے، تو میں بے تامل کہوں گا: ”فتحِ ایران“۔ نہاوند کی جنگ نے عربوں کو ایک حسین مُلک کے علاوہ ایک قدیم تہذیب بھی عطا کی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ ایسی قوم سے روشناس ہوئے جو سامی اور آریائی عناصر کے امتزاج سے ایک نئی تہذیب کو جنم دے سکتی تھی۔ ہماری مسلم تہذیب سامی اور آریائی تصوّرات کی پیوندکاری کا حاصل ہے۔ گویا یہ ایسی اولاد ہے جسے آرائی ماں کی نرمی و لطافت اور سامی باپ کے کردار کی پُختگی و صلابت ورثے میں مِلی ہے۔ فتحِ ایران کے بغیر اسلامی تہذیب یک رُخی رہ جاتی۔ فتحِ ایران سے ہمیں وہی کُچھ حاصل ہو گیا جو فتحِ یونان سے رومیوں کو مِلا تھا۔“
(حوالہ: ”منتشر خیالاتِ اقبالؔ“ از علامہ محمد اقبال، مترجم: میاں ساجد علی)
تمدّن آفریں، خلاّقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
تیرے اسلاف اگرچہ عرب کے صحرا سے نِکلے تھے لیکن انہوں نے دنیا میں نئے تمدُّن کی بنیاد رکھ دی اور علوم و فنون کے دریا بہا دیے۔ عرب کا وہ ریگِستان جو کبھی شتربانوں (یعنی اونٹوں کی نگہبانی کرنے والوں) کی تربیت گاہ تھا، دنیا میں اسلام کے حوالے سے نئے تہذیب و تمدّن اور حکمرانی و جہانداری کے حقیقی انداز کی تخلیق کا باعث بنا۔ (اس کی وضاحت اگلے شعر میں)
سماں ’الفُقْرَ و فَخرْی‘ کا رہا شانِ امارت میں
”بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را“
تمہارے اسلاف نے اتنی شان و شوکت اور حکمرانی کے دور میں بھی درویشی اور فقیری کو ہی اپنا طرہِ امتیاز بنائے رکھا۔ وہ شانِ امارت (یعنی دولت مندی) میں بھی ”الفقر فخر“” کا عملی نمونہ تھے۔
اس شعر کا دوسرا مصرع حافظ شیرازیؔ کی مشہور غزل کا مصرع ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت فطری طور پر خوبصورت اور دِلکش ہوتی ہے، اُسے لِپ اسٹک، پوڈر، کریم، ویسلین اور کیوٹیکس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ شعر کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک حسین عورت آرائشِ ظاہری سے بے نیاز ہوتی ہے، اسی طرح ہمارے خلفاء ظاہری شان و شوکت سے مستغنی تھے۔ اِشارہ ہے فاروقِ اعظمؓ کی طرف۔۔ جن سے بڑا حاکم، مدبّر، منتظم سیاست دان اور جامع حیثیات انسان ابھی تک دنیائے اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔ اپنوں کا تو ذکر ہی کیا ہے، قیصر اور کسریٰ ان کے نام سے کانپتے تھے لیکن ان خوبیوں کے باوجود آپؓ کی سادگی اور درویشی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے کرتے میں پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے اور زمین پر سوتے تھے۔
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ مُنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
اللہ کے وہ بندے درویشی اور فقیری کی حالت میں بھی اس قدر غیرت مند تھے کہ اُمراء کو اِس امر کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان فقراء کو خیرات کے نام پر کسی قسم کا عطیہ دے سکیں۔
غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے:
جہاںگیر و جہاںدار و جہاںبان و جہاںآرا
الغرض میں اِس قوم کے صحرانشیں اور سادہ لوگوں کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں۔ بس یہ سمجھ لے کہ وہ:-
- جہاں بیں: جہان کو فتح کرنے والے
- جہاں دار: جہان پر حکومت کرنے والے
- جہاں بان: جہان کی نگہبانی کرنے والے
- جہاں آرا: جہان کو آراستہ کرنے والے
تھے۔
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا
اگر میں چاہوں تو اُن لوگوں کی زندگی کا نقشہ اپنے الفاظ اور شاعری کے ذریعے پیش کردوں لیکن مشکل یہ ہے کہ تُو اُن حالات اور اُن لوگوں کا تصوّر کرنے سے قاصر ہے۔
تخیّل سے یہاں تصوّر یا خیال مراد ہے یعنی تُو مسلمانوں کی عظمت و شوکت کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ واضح ہو کہ یہ بات اقبالؔ نے بالکل سچ کہی تھی۔ آج کل کے غلام مسلمان اپنے بزرگوں یا اسلاف کی سطوَت و شوکت کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رو ہ رسمِ شہبازی
(حوالہ: بالِ جبریل)
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
اگر تیرے آباء و اجداد اور تمھارا تقابل کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے تجھ میں اور اُن میں کوئی تعلق اور مشترک خصوصیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ تُو محض باتیں بناتا ہے (وہ بھی اس وقت جب تجھے اِس “فنِ لطیف” کے جوہر دکھانے کے لیے کسی شاندار ہوٹل میں عصرانہ پر مدعو کیا جائے) جبکہ ان کی ساری توجہ عمل اور کردار پر تھی جبکہ تُو ہوٹلوں میں بیٹھ کر سگریٹ کا دھواں اُرانے کا عادی ہے۔ تُو بے عمل اور محض مقلد ہے لیکن وہ جہاد و اجتہاد کے عادی لوگ انتہائی باعمل اور ہمیشہ متحرک رہنے والے تھے۔
؎ اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
(حوالہ: بانگِ درا)
آخری مرتبہ اُنہوں نے 1857ء میں اپنی تلوار کے جوہر دکھائے تھے لیکن مرزا الٰہی بخش اور حکیم احسن اللہ خاں جیسے غدّاروں نے اس انقلاب کو ناکام بنادیا، تو ثابت ہوا کہ آج کل کے مسلمان عمل اور حرکت سے محروم ہیں۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اگر آج ہم اپنے زوال کے اسباب پر غور کریں اور یہ سوچیں کہ آخر گردشِ فلک نے ہمیں ثریّا کی بلندیوں سے اُٹھا کر زمین کی پستیوں میں کیوں پھینک دیا ہے تو اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ ہمارے بزرگوں نہ ہمیں جو ورثہ دیا تھا، ہم نے وہ کھو دیا۔
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
حکومت کا رونا تو کیا رویا جائے؟ وہ تو ایک عارضی چیز تھی۔ دنیا کا قاعدہ یہی چلا آتا ہے کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ ہمارے لیے اس عام قاعدے سے بچے رہنے کا کیا موقع تھا جو سب پر طاری ہوتا رہا؟
اس کی تفصیل یہ ہے کہ حکومت کا نتیجہ دولت، دولت کا نتیجہ عورت، عورت کا نتیجہ عیش و عشرت، عیش و عشرت کا نتیجہ غفلت، غفلت کا نتیجہ غلامی۔
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
مگر افسوس یہ ہے کہ ہم نے علم کے وہ موتی بھی کھو دیے جو بزرگوں سے ہمیں ملے تھے، وہ نادر اور بیش بہا کتابیں جو ہمارے اسلاف کی زندگی بھر کی علمی جستجو کا نچوڑ تھیں۔ علم کے وہ موتی آج اہلِ یورپ کے قبضہ میں ہیں اور وہ اُن سے استعفادہ کر رہے ہیں، آج اہلِ یورپ کے قبضہ میں یہ موتی دیکھ کر دِل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔
سیپارہ: اس لفظ کے دو معنی ہیں:-
- عرفِ عام میں قرآنِ مجید کے کسی جزو کو کہتے ہیں مثلاً الف لام میم، سیقول، تلک الرسل۔
- لغوی معنی ہیں 30 ٹکڑے۔ اس شعر میں دوسرے معنی مراد ہیں یعنی جب ہم اپنے اسلاف کی کتابیں یورپ کے کتب خآنوں میں دیکھتے ہیں تو دِل کے تیس ٹُکڑے ہوجاتے ہیں (یعنی بہت رنج ہوتا ہے)۔ واضح ہو کہ اقبالؔ نے اس مصرع میں بلاغت کا کمال دکھایا ہے۔ الفاظ سے تو اس قدر ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی بربادی کی تاریخ بھی پوشیدہ ہے۔ مثلاً اگر ناموَر سلطان ٹیپُو شہید کو شِکست نہ ہوتی تو اس مردِ مومن کا نادر الوجود کتب خانہ، انڈیا آدل لائبریری برِٹش میوزیم کی زینت کیسے بنتے؟
”غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن
کہ نُورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را“
اس نظم کا آخری شعر مشہور فارسی شاعر غنی کاشمیری کا ہے۔
اقبالِ فرماتے ہیں کہ ہمارا علمی سرمایہ اغیار کے قبضے میں دیکھ کر غنی کا شمیری کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے:-
ترجمہ: اے غنی! حضرت یعقوبؑ کی سیاہ بختی دیکھ کہ ان کی آنکھوں کا نور (حضرت یوسفؑ) زلیخا کی آنکھ کے لیے روشنی کا سامان بنا ہوا ہے۔
مراد ہے کہ کتابیں تو ہماری تھیں اور فائدہ ان سے دوسرے اُٹھا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے حضرت یعقوبؑ کے نورِ نظر (یعنی حضرت یوسفؑ) سے زلیخا کی آنکھیں منوّر ہو رہی تھیں اور حضرت یعقوبؑ فراق (جُدائی) میں بینائی کھوچکے تھے۔
مطلب یہ ہے کہ حقدار یا مستحق تو محروم رہا، اور اغیار یا غیر لوگ فیض یاب ہوگئے۔ گویا یہ علم کے موتی مسلمانوں کے تھے اور انہیں کے پاس ہونا چاہیئے تھے لیکن ان سے اہلِ یورپ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
نوٹ
غنی کاشمیری کا نام مُلّا محمد ظاہر تھا۔ کلیمؔ اور صائبؔ کا دوست اور ہمعصر تھا۔ فارسی شاعری میں ایک خاص طرز کا موجد تھا، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ تصنع پیچیدگیاں، دشواری اور مشکل پسندی۔۔ یہ اس کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ صائبّ کی طرح یہ بھی مثال نگاری میں بہت بلند درجہ رکھتا تھا۔ 1661ء میں چالیس سال کی عمر میں وفات پائی۔ غنی کی سیرت کا بہترین پہلو یہ ہے کہ اس نے ساری عمر کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
تبصرہ
یہ بڑی دِلکش اور اثر آفریں نظم ہے۔ اقبالؔ کے جذبات و احساساتِ مِلّی کی آئینہ دار ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مِلّت کے نوجوانوں کے اندر اپنی حالت کا، اپنے آبا و اجداد کی حالت سے موازنہ کرنے کا خیال پیدا ہو۔ یہ مصرع ” تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی“ اِس نظم کی جان ہے۔
نوٹ: مجھے افسوس ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کو کالجوں میں مخلوط تعلیم کی وجہ سے اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ موازنہ کا ناخوشگوار فریضہ انجام دے سکیں۔ انسان ایک وقت میں ایک ہی کام کرسکتا ہے، اور موازنہ سے ”مشاہدہ“، بہرکیف، زیادہ دلچسپ اور دِلپذیر ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)