”سُلطان ٹیپو کی وصیّت“ از علامہ اقبال
فہرست
اِس دلپذیر نظم ”سُلطان ٹیپو کی وصیّت“ میں علامہ اقبال نے سلطان شہید کی سیرت بیان کی ہے اور اُن اصولوں کی وضاحت کی ہے جن پر یہ ”مردِ مومن“ ساری عمر کاربند رہا۔
راوی: جنوری 1929ء میں جب علامہ اقبال بنگلور گئے تو سُلطان ٹیپو شہید کے مزار پر تخلیہ میں دو ڈھائی گھنٹے مراقبہ کرتے رہے۔ حکم یہ تھا کہ جب تک میں باہر نہ آؤں مجھے بلایا نہ جائے۔ جب فاتحہ اور مراقبے سے فارغ ہوکر باہر آئے اور سماع کی محفل ختم ہوچکی تو میسور کے مشہور قومی کارکن محمد ابا سیٹھ نے پوچھا۔
محمد اباسیٹھ: آپ روضۂ سلطان شہید میں اتنی دیر راز و نیاز میں مصروف رہے، آپ کو وہاں سے کیا فیض حاصل ہوا؟
علامہ: میرا ایک لمحہ بھی وہاں بیکار نہیں گزرا۔ ایک پیغام تو یہ ملا ہے:-
؎ در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست
ہمچو مرداں جان سپُردن زندگیست!
(اے اقبال!) مسلمانوں کو یہ پیغام دو کہ اگر زندگی میں وہ مسلمانوں کی طرح زندگی بسر نہیں کرسکتے، اگر مومن کی طرح زندگی گزارنا ممکن نہیں تو پھر مردوں کی طرح جان پر کھیل جانا ہی زندگی ہے، جان سے گذر جانا ہی زندگی ہے۔
(حوالہ: مکالماتِ اقبالؔ از سعید راشد)
نظم ”سُلطان ٹیپو کی وصیّت“ تشریح
تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے مسلمان! تُو اللہ کا عاشق ہے، اور تیرا مقصدِ حیات اُس تک پہنچتا ہے، اس لیے تُو “منزل” کو قبول نہیں کرسکتا، یعنی دنیا سے دل نہیں لگا سکتا، اور اس دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت یا لذّت تجھ کو راہِ حق سے باز نہیں رکھ سکتی۔ عشقِ حقیقی کے جذبے سے سرشار انسان دنیاوی نعمتوں اور دولتوں وغیرہ سے بے نیاز ہو کر اپنے اس جذبے میں مگن رہتا ہے۔
واضح رہے کہ تُو عشق کے راستے کا مسافر ہے، اس لیے منزل قبول کرنا، کہیں ٹھہر جانا یا رُک جانا تیری شان کے لائق نہیں۔ تجھے چاہیے کہ کہیں مقام نہ کر بلکہ جستجو میں آگے ہی بڑھتا چلا جا۔ اگر کسی مقام پر تجھے اپنا مقصود مِل بھی جائے تو بھی اس پر اکتفا نہ کر اور ایک نئی منزل کی طرف روانہ ہو جا
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
اے انسان! اگر تُو ایک موجِ آب کی مثل ہے تو جد و جہد سے ایک دریا بن جا۔۔ ایسا دریا جس میں طوفان ہی طوفان ہو۔ اگر تجھے ساحل بھی مل جائے تو لبیک نہ کہہ بلکہ کنارہ کش ہو کیونکہ اس کا دوسرا نام زندگی ہے۔ یعنی تُو ہر دم ترقی کی کوشش کر اور باطل کا مقابلہ کر۔ اگر دنیا تجھے عافیت اور سکون کی چرف بلائے تو اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی مت دیکھ۔ مومن عیش کی زندگی کے لیے نہیں پیدا ہوا۔ بقول اقبالؔ:-
؎ تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)
کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
اے مردِ مومن! یہ کائنات بُتوں سے بھرپور ہے اور تُو بت شِکن ہے۔ اس لیے اپنا دامن بچا۔ تجھ سے محفل گداز ہوتی ہے۔ تیری خودی سے کائنات زندگی حاصل کرتی ہے۔ اس لیے تیرے لیے دنیا نہیں ہے کہ محفل کی گرمی تجھ پر اثر انداز ہو اور تُو محفل کے بہاؤ میں بہہ جائے۔ یعنی تُو دنیا کی فانی دلچسپیوں میں منہمک ہو کر اپنے مقصدِ حیات سے غافل مت ہو۔ تُو محفل گداز ہے، یعنی عیش و عشرت کا دشمن ہے۔ اس لیے ان چیزوں کی طرف توجہ مت کر، جو تجھے میدانِ جہاد سے باز رکھ سکتی ہیں۔ مثلاً دولت، عورت اور دنیاوی شان و شوکت وغیرہ۔
صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول
جب دنیا وجود میں آئی تو اس وقت حضرت جبرئیلؑ نے مجھے یہ نصیحت کی کہ ایسا دِل قبول نہ کر جو عقل کا غلام ہو۔ گویا عقل اِنسان کو نفع اور زر کے چکر میں ڈال کر اسے اس کے بلند مقصد سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ عشق کا تقاضا ہے کہ عقل کو اپنے راست کا روڑا نہ بننے دے۔
یعنی اسلامی تعلیمات نے مجھ پر یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ اپنے دِل کو عقل کے تابع نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ عقل تو یہی کہتی ہے کہ میدانِ جنگ میں جان کا خطرہ ہے۔ حالانکہ مسلمان کا فرضِ منصبی تو جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اور جہاد نام ہی اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کا ہے۔
باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شِرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!
باطل کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے ساتھ، طاقتور انسان یا قوم کی اطاعت بھی کرو۔ اور حق کی تلقین یہ ہے کہ خدا کے علاوہ اور کسی کی اطاعت مت کرو۔۔ چونکہ تُو حق پرست ہے، اس لیے حق کے ساتھ باطل کو شامل مت کر یعنی اللہ کے سوا اور کسی کی اطاعت مت کر۔
؎ ہر کہ پیماں با ہو المعبود بست
گردنش از بند ہر معبود رست
جس کسی نے زندہ و حاضر و ناظر خدا سے بندگی کا رشتہ جوڑ لیا، اُس کی گردن ہر ایک معبودِ باطل کے آگے جھکنے سے آزاد ہوگئی۔
(حوالہ: رموزِ بیخودی: در معنی حریتِ اسلامیہ و سِرِ حادثۂ کربلا)
تبصرہ
اِس دلپذیر نظم میں علامہ نے سلطان شہید کی سیرت بیان کی ہے اور اُن اصولوں کی وضاحت کی ہے جن پر یہ ”مردِ مومن“ ساری عمر کاربند رہا۔ واضح ہو کہ اقبالؔ کو سلطان شہید سے بے پناہ عقیدت تھی، چنانچہ اُنہوں نے اپنے شاہکار (اور اسی لیے غیر معروف) جاوید نامہ میں چند سطریں نہیں، بلکہ آٹھ صفحے اس مردِ مجاہد کے ذکرِ جمیل کی نظر کیے ہیں۔
مسلمان اس نامور فرزندِ اسلام کی سیرت سے اس لیے بے خبر ہیں، کہ وہ انگریزوں کا جانی دشمن تھا اور اُس کی شہادت کے بعد یہ دشمن اسلام گروہ (انگریز) ہندوستان پر قابض ہوگیا۔ اس لیے اُسے نےہندوستان کی تاریخ میں اِس مردِ مومن کا تذکرہ ایسے نفرت انگیز پیرایہ میں کیا، کہ پڑھنے والوں کو اس سچے مسلمان سے عقیدت درکنار، نفرت ہوگئی، حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس مردِ حُر کا وجود کفر کے سیلاب کے مقابلہ میں ایک بند تھا۔ افسوس کہ 1799ء یہ بند ٹوٹ گیا، اور کفّار کا سیلاب ملک پر محیط ہوگیا۔
میں اپنے دعوے کے اثبات میں حسب ذیل حقائق پیش کرتا ہوں:۔
- شہادتِ سلطان ، 1799ء
- پورے دکّن پر اقتدار ، 1800ء
- کرنانک پر قبضہ ، 1801ء
- روہیلکھنڈ اور مشرقی یو-پی پر قبضہ ، 1801ء
- دلّی پر قبضہ، 1803ء
- ہلکر کی شکست اور وسط ہند پر اقتدار، 1805ء
- کاٹھیاواڑ اور گجرات پر اقتدار، 1807ء
- راجپوتانہ اقتدار، 1817ء
- مرہٹوں کا خاتمہ، 1818ء
یعنی بیس سال کی قلیل مدت میں پنجاب کے علاوہ سارا ہندوستان یونین جیک کے سایۂ بوم پایہ کے نیچے آگیا۔
سلطان کا اصلی نام فتح علی خان تھا۔ 1751ء میں پیدا ہوا۔ شجاعت اور مردانگی، دلیری اور جانبازی، یہ خوبیاں اُس کی سرشت میں داخل تھیں۔ چنانچہ باپ نے 1766ء میں اپنی فوج میں ایک رجمنٹ کا افسر بنادیا ، اور اس بطلِ جلیل نے 1769ء میں کہ جب اس کی عمر صرف 16 سال تھی، مرہٹوں کے مقابلہ میں پہلی کامیابی حاصل کی۔ 1799ء میں 4 مئی کو میر صادق اور دوسرے غدّارانِ مملکت کی بدولت، میدانِ جنگ میں شہادت حاصل کی۔۔ گویا ہندوستان میں مسلمانوں کی سطوت کا خاتمہ ہوگیا۔
اُسی دن رات کے نو بجے انگریزوں نے سلطان شہیدؒ کی نعش، بہت تلاش کے بعد کشتوں کے انبار سے نکالی تو دیکھا کہ شمشیرِ آبدار، اُسی طرح مردِ مجاہد کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ اُس کا قبضہ خون آلود تھا، اس لیے بصد مشکل، معشوق کو عاشق سے جدا کیا ۔۔ اور اس میں کوئی شق نہیں کہ کارکنان قضاء و قدر نے اُس رات سلطان ٹیپو کے ہاتھ سے تلوار نہیں لی، بلکہ مشرق میں مسلمانوں کے ہاتھ سے تلوار لے لی۔۔ اور یہ میرے جذبات ہی نہیں ہیں، بلکہ اُس زمانہ کے مسلمانوں نے بھی سلطان کی شہادت کو مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ تعبیر کیا تھا۔ چنانچہ ایک شاعر نے سلطام کی تاریخِ شہادت جس مصرع سے نکالی، وہ میرے دعویٰ پر شاہد (گواہ) ہے:-
؏ خِرد گفت تاریخ ”شمشیر گم شد“ : 1214ھ
”شمشیر گم شد“ کے اعداد سے تاریخِ شہادت نکلتی ہے اور تاریخِ مشرق گواہ ہے کہ مسلمانوں کی تلوار واقعی گُم ہوگئی اور اس اس سے بھی زیادہ افسوس یہ ہے کہ وہ گم شدہ تلوار ابھی تک نہیں ملی۔ غور سے دیکھا جائے تو اقبالؔ کا پیغام، اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ مسلمان اس ”شمشیرِ جگر دار“ کو پھر کہیں سے ڈھوند نکالیں۔
(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی