نظم ”پنجابی مسلمان“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”پنجابی مسلمان“ میں علامہ اقبال نے پنجاب کے مسلمانوں کی ذہنیت، اُن کے مذہبی رجحانات اور سماجی رویوں پر غور و تبصرہ کِیا ہے۔ اِس نظم میں اقبالؔ نے اُن مسلمانوں کی تازگی پسندی، اندھی تقلید، اور تحقیق و غور کی کمی کو اُجاگر کِیا ہے، اور دکھایا ہے کہ وہ اکثر پنجابی مسلمان نئے عقائد یا پیر و مرشد کے جال میں جلد گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ نظم ایک طرح سے پنجابی مسلمانوں کی نفسیاتی اور مذہبی فطرت کی تصویر کشی ہے۔
نظم ”پنجابی مسلمان“ کی تشریح
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| تازہ پسند | نئی نئی چیزیں پسند کرنے والا |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ایک پنجابی مسلمان مذہب کے معاملے میں جِدت پسند واقع ہوا ہے۔ جب اُسے کوئی نیا عقیدہ یا مذہبی خیال پیش کیا جاتا ہے، تو وہ اُسے فوراً قبول کرنے کی طرف راغب ہو جاتا ہے، مگر یہ دلچسپی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی، کیونکہ جیسے ہی کوئی نیا عقیدہ سامنے آتا ہے، وہ پرانے عقیدے کو ترک کر کے نئے عقیدے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یوں ایک پنجابی مسلمان کسی ایک عقیدے کے ساتھ طویل عرصے تک نہیں رہتا۔
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مُریدی کا تو ہَرتا ہے بہت جلد

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| تحقیق | کسی بات/مسئلے کی حقیقت تک پہنچنا، چھان بین |
| شِرکت کرنا | شامل ہونا |
| مُریدی | کسی پیر کی بیعت میں آنا |
تشریح:
پنجابی مسلمان تحقیق میں کمزور واقع ہوا ہے۔ مذہبی مسائل کی چھان بین اور گہری تحقیق اُس کی طبیعت میں بہت کم ہے۔ اگر کوئی میدانِ تحقیق سامنے آئے تو وہ اُس میں دلچسپی نہیں لیتا، نہ ہی دیکھتا ہے کہ کون سا عقیدہ یا بزرگ قابلِ اعتبار ہے۔ اِسی طرح کوئی شخص اگر پیر یا مرشد ہونے کا دعویٰ کرے، تو وہ فوراً اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور بڑی جلدی اُس کا معتقد و مرید بن جاتا ہے، چاہے وہ پیر عیار و مکار و دھوکے باز ہی کیوں نہ ہو۔”مریدی کے کھیل میں ہارنے سے“ اقبالؔ کی مراد یہ ہے کہ پنجابی مسلمان اگر سچا مرید بننا چاہتا، تو پہلے اپنے پیر و مرشد کی قرآنی تعلیمات کے مطابق جانچ پرکھ کرتا۔ یعنی وہ دیکھتا کہ جس شخص کی بیعت وہ کرنے جا رہا ہے، اُس کی زندگی قرآنی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے یا نہیں، لیکن چونکہ اُس کی طبیعت میں تحقیق کا مادہ کمزور ہے، وہ بغیر جانچ پڑتال کے فوراً کسی پیر یا مرشد کی طرف جھک جاتا اور یوں مریدی کے کھیل میں جلد ہار جاتا ہے۔
تاوِیل کا پھندا کوئی صیّاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| تاویل | کسی لفظ/بات کے ظاہری مطلب سے ہٹ کر نئے معنی پیدا کرنا |
| پھندا | جال |
| صیّاد | شکاری |
| شاخِ نشیمن | گھونسلے کی شاخ |
تشریح:
پنجابی مسلمان تاویل کے پھندے میں بڑی تیزی سے پھنسنے والا واقع ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن و حدیث میں اپنے خود ساختہ دعوے کے لیے رکیک (عامیانہ، ادنیٰ درجے کی) تاویلات پیش کرے، تو چونکہ اُس کی طبیعت میں تحقیق کا مادہ بہت کم ہے، اس لیے وہ فوراً اُن پر ایمان لے آتا اور آنکھیں بند کر کے ”جماعتِ صالحین“ میں شامل ہو جاتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پرندہ دانہ دیکھتے ہی اپنے گھونسلے کی شاخ سے زمین پر اُتر آتا اور شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ پنجابی مسلمان بھی اُسی پرندے کی مانند اُن مذہبی یا سیاسی شکاریو ں کے جال میں جلد پھنس جاتے ہیں، جو قرآن و حدیث کے مفہوم کو اپنی مرضی کے مطابق پیش کرتے ہیں تاکہ اُن کا من چاہا مطلب نکل آئے۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی






