نظم ”چاند“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
۱۹۰۴ء کے مخزن میں چاند کے سترہ شعر شائع ہوئے تھے، نظرِ ثانی کے دوران علامہ اقبال نے چار شعروں کو حذف کر دیا۔
نظم چاند میں اقبالؔ اپنا، یعنی انسان کا اور چاند کا موازنہ کرتے ہیں اور اُن تمام چیزوں کا ذکر کرتے ہیں جو ان میں مشترک ہیں۔ مگر آخر میں وہ فرق اور امتیاز قائم کرتے ہیں جو انسان کو چاند یا باقی مناظرِ فطرت سے بالکل الگ کر کے ایک بلند تر مقام عطا کرتا ہے۔
نظم ”چاند“ کی تشریح
میرے ویرانے سے کوسوں دُور ہے تیرا وطن
ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
کوسوں دُور | بہت دور |
موجزن | موجیں مارتا ہوا، متلاطم |
تشریح:
علامہ اقبال چاند سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ میری اِس ویران دنیا سے یوں تو تیرا فاصلہ کوسوں کا ہے۔ مگر پھر بھی میرا دِل تیری کشش محسوس کر رہا ہے اور تیری اِس کشش ہی کی وجہ سے دل کے دریا میں موجیں متلاطم ہیں۔
چاند کی کششِ ثقل (Gravity) سے زمین پہ موجود دریا اور سمندروں کی موجوں میں اُتار چڑھاؤ (مد و جزر) آتا ہے، یہاں اس سائنسی عمل کو خوبصورتی سے شعری رنگ میں ڈھالا گیا ہے۔
قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تُو؟
زرد رُو شاید ہوا رنجِ رہِ منزل سے تُو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
قصد | ارادہ |
زرد رُو | چہرہ پیلا پڑنا |
تیرا ارادہ کس محفل میں جانے کا ہے؟ اور تُو کس محفل سے آیا ہے؟ یعنی آسمان میں تیری گردشوں کا دن بہ دن اور سال ہا سال کیا سلسلہ چل رہا ہے؟
چاند گرمی کے مہینوں کی شروعات میں، آسمان میں نیچے آجاتا ہے۔۔ چونکہ ان مہینوں میں سورج اوپر چلا جاتا ہے۔ اس طرح چاند پر سورج کی روشنی کا عکس یوں پڑتا ہے کہ وہ زرد دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ حقیقی وجہ چھوڑ کر، شاعر نے ایسی وجہ بیان کی ہے جس میں شاعرانہ حُسن ہے۔
اقبالؔ حُسنِ تعلیل کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ منزل کی راہ میں دکھ اور تکلیفیں اُٹھانے سے تیرا رنگ زرد پڑنے لگا ہے (چاند کی کوئی منزل نہیں اس کے لیے صرف گردش ہی گردش ہے)۔
حُسنِ تعلیل: حُسنِ تعلیل درحقیقت وہ صفت ہے جس میں شاعر یا مصنف ایسی چیز کو کسی چیز کی عِلّت فرض کرتا ہے جو درحقیقت اُس کی عِلّت نہیں ہوتی۔ مثلاً پھول کے کھلنے کی وجہ یہ بیان کرنا کہ وہ بلبل کی نغمہ سنجی پر خوش ہو رہا ہے یا خوشی میں ہنس رہا ہے۔
آفرنیش میں سراپا نور تُو، ظُلمت ہوں میں
اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
آفرینش | پیدائش، تخلیق |
ظُلمت | اندھیرہ، تاریکی |
سیہ روزی | بدبختی، بدقسمتی |
تشریح:
اپنی تخلیق کے لحاظ سے تو اے چاند تُو سر تا پا نور ہے، اور تیرے برعکس میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوں۔ لیکن ہم دونوں کی قسمت بالکل ایک ہے۔
یہاں لفظ ‘سیہ روزی‘ کا استعمال بڑا دلچسپ ہے۔ چاند کی سیاہ روزی یہ ہے کہ دن کے وقت اس کا نور اس قدر ماند پڑ جاتا ہے کہ سیاہی یا تاریکی کے مترادف ہوجاتا ہے۔ اور ویسے لفظ ‘سیہ روزی‘ بدقسمتی کے معنوں میں مستعمل ہے۔
آہ! مَیں جلتا ہوں سوزِ اشتیاقِ دید سے
تو سراپا سوز داغِ منّتِ خورشید سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سوز | آگ |
اشتیاقِ دید | دیکھنے کا شوق |
داغِ مِنّت | احسان کا داغ |
خورشید | سورج |
تشریح:
ہم دونوں میں بدقسمتی کے سوا بھی ایک مماثلت ہے۔ وہ یہ کہ ہم دونوں ہی جلتے ہیں۔ میں (محبوبِ حقیقی کے) دیدار کے شوق کی تپش میں سوزاں ہوں جبکہ تُو سورج کی روشنی سے جل رہا ہے۔ یہ روشنی جو چاند کو سورج کے احسان سے حاصل ہوتی ہے، اس کو اقبالؔ نے داغ کا نام دیا ہے۔ چونکہ کسی کا احسان اُٹھانا خودی کو زخمی کرنے کے مترادف ہے۔
اقبال کی فارسی میں کہی ایک نظم ‘تنہائی‘ میں بھی انہی خیالات کی ترجمانی کی گئی۔
رَہِ دَراز بَریدَم ز ماہ پُرسیدَم
سَفَر نصیب، نصیبِ تو منزلیست کہ نیست
جہاں ز پرتوِ سیماے تو سَمَن زارے
فروغِ داغِ تو از جلوۂ دلیست کہ نیست
سوئے ستارہ رقیبانہ دید و ہیچ نَگُفت
ترجمہ: میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے لیکن تیرے اندر جو داغ ہے اسکی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟
اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا۔(کیونکہ اسکی چمک کا راز صرف ستارہ یعنی سورج تھا، دل نہیں)۔
ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے
میری گردش بھی مثالِ گردشِ پَرکار ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حلقہ | دائرہ |
پرکار | پرکار ایک دائرے میں رہتے ہوئے گھومتی ہے |
اگر تیری رفتار ایک خاص حلقے میں یعنی مشرق سے مغرب تک محدود ہے تو میں بھی ایک پرکار کی طرح ایک دائرے میں گردش کر رہا ہوں۔ اس سے مراد ہو سکتی ہے کہ انسان بھی چاند ہی کی طرح شب و روز کی گردش میں قید ہے۔ دونوں ہی قوانینِ فطرت سے بالا تر نہیں ہو سکتے۔
زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تُو، حیراں ہوں مَیں
تُو فروزاں محفلِ ہستی میں ہے، سوزاں ہوں مَیں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سرگرداں | چَکّر کاٹنے والا، گردش کرنے والا |
فروزاں | روشن |
سوزاں | جلتا ہوا |
تشریح:
اقبالؔ چاند سے کہتے ہیں کہ تُو زندگی کی راہ میں سرگرداں ہے۔ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی اس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد بے خبر چلنا اور زندگی کی حقیقت سے بے خبر ہو کر گھومتے رہنا ہے۔
مگر دوسری طرف، میں (یعنی انسان) حیران ہوں۔ غور کیجیے کہ حیرانگی وہ جذبہ ہے جو کسی شے کو (جُزواً ہی سہی) جاننے اور سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ شعور اور جاننے کی قوّت کے بغیر حیران ہونے کا سوال پیدا نہ ہو۔
علامہ اقبال اپنی فطرت کی شاعری میں اور نظموں میں بھی مناظرِ فطرت سے یوں ہی ہم کلام ہوتے نظر آتے ہیں:-
؎ زیبِ محفل ہے، شریکِ شورشِ محفل نہیں
بانگِ درا ۲: گُلِ رنگیں
یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اب اقبالؔ اپنے اور چاند کے جلنے کا فرق واضح فرماتے ہیں۔ اے چاند! تُو تو اوروں سے لی گئی روشنی کے سبب منوّر اور روشن ہے، میری روشنی البتہ اُس آگ سے پیدا ہوتی ہے جس میں مَیں خود جل رہا ہوں۔
؎مطمئن ہے تُو، پریشاں مثلِ بُو رہتا ہوں میں
بانگِ درا ۲: گُلِ رنگیں
زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جستجو رہتا ہوں میں
مَیں رہِ منزل میں ہوں، تُو بھی رہِ منزل میں ہے
تیری محفل میں جو خاموشی ہے، میرے دِل میں ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
رہِ منزل | منزل کا راستہ |
تشریح:
ہم دونوں ہی منزل کی راہ میں ہیں۔ اسی طرح تیرے اردگرد کی خاموشی میرے دل میں اُتری ہوئی ہے۔
اس شعر پہ خاموشی اور اُداسی کا مزاج حاوی ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ میں جس منزل کا راہی ہوں، وہ خدا تعالی تک رسائی ہے۔ یہ منزل چاند کی طرح زماں و مکاں کے فاصلے طے کرنے سے نہیں ملتی۔ یہ منزلیں تو میرے دل ہی میں طے ہونگی۔
اسی طرح جس محفل میں چاند سرگرداں ہے، وہ بھی خاموش ہے۔ یعنی اس گردش سے ابھی اُسے کوئی منزل حاصل نہیں ہوئی۔ اور یہی خاموشی کا عالَم شاعر کے دل پر طاری ہے۔
تُو طلب خُو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے
چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
طلب خُو | مانگنے کا عادی |
دستُور | طریقۂ کار |
تشریح:
ہم دونوں میں ایک اور مشترک بات یہ ہے کہ جیسے تُو مانگنے کا عادی ہے، میں بھی ہوں۔ تیرا نور چاندنی ہے جس کا تُو خورشید سے طلب خُو ہے اور میرے لیے میرا نور عشق ہے۔ میں عشق سے اپنی ہستی اور وجود کو سرشار کرنا چاہتا ہوں۔
انجمن ہے ایک میری بھی جہاں رہتا ہوں میں
بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تُو، تنہا ہوں مَیں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
انجمن | محفل، مراد دنیا |
بزم | محفل |
یکتا | منفرد، اکیلا، بے مثال |
تشریح:
تیری ستاروں کی محفل (کہکشاں) جیسی ایک انجمن میری بھی ہے۔ جس طرح تُو ستاروں کی بزم میں سب سے منفرد چمکتا ستارہ ہے، اسی طرح ان انسانوں میں مَیں بھی اکیلا اور تنہا ہوں۔
میرے اردگرد کے لوگ اپنی خودی سے ناآشنا ہیں اور عشقِ حقیقی سے بیگانے ہیں، اس لیے ان کی محفل میں خود کو تنہا پاتا ہوں۔
مہر کا پرتَو ترے حق میں ہے پیغامِ اجل
محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوۂ حُسنِ ازل
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مہر | سورج |
پرتَو | شعاع، جھلک، عکس |
پیغامِ اجَل | موت کا پیغام |
حُسنِ ازل | ہمیشہ رہنے والا حسن، مراد خدا تعالیٰ |
تشریح:
سورج کی ایک جھلک، ایک شعاع تیرے لیے موت کا پیغام لے آتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کے حسن کا جلوہ مجھے اپنے اندر محو کر لیتا ہے اور میری اپنی شناخت ختم ہوتی جاتی ہے۔
پھر بھی اے ماہِ مبیں! مَیں اور ہوں تُو اور ہے
درد جس پہلو میں اُٹھتا ہو، وہ پہلو اور ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ماہِ مُبیں | روشن صاف نظر آنے والے چاند |
پہلو | دل |
تشریح:
یہ سب چیزیں ہم میں مشترک ہیں مگر اے روشن چاند! بہر حال درد جو دل میں اُٹھتا ہے، وہ ایک ایسی چیز ہے جس سے تُو بالکل نا آشنا ہے۔ یہ دردِ دل ہی انسان کو انسان بناتا ہے اور اس کو شعور دلاتا ہے۔
گرچہ مَیں ظُلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو
سینکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دُور تو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سراپا | سر تا پا، یعنی سارا کا سارا |
ذوقِ آگہی | شعور |
تشریح:
چاہے میرا وجود تیری طرح منور نہیں، اور ماہِ مبین کے مقابلے میں، مَیں دیکھنے میں تاریکی ہی تاریکی ہوں۔ لیکن یہ نور، ذوقِ آگہی کا نور نہیں۔ ذوقِ آگہی سے اُس شعور (consciousness) کی طرف اشارہ ہے جو کائنات میں ما سوائے انسان کے، کسی کو حاصل نہیں۔
جو مری ہستی کا مقصد ہے، مجھے معلوم ہے
یہ چمک وہ ہے، جبیں جس سے تری محروم ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ہستی | وجود |
جبیں | ماتھا |
تشریح:
مجھے جو اس کائنات میں بھیجا گیا تو محض سر گرداں رہنے لے لیے نہیں، بلکہ مجھے اپنی زندگی کا مقصد بتلایا گیا ہے۔ اس مقصد کا علم ہونا وہ چمک ہے، جو تیری چاندنی میں نہیں۔ مجھ میں اپنی خودی کی معرفت پا کر خدائی صفات پیدا کرنے کی جو قوّت ہے، وہ تجھ میں نہیں۔ اور یہی میرا امتیاز ہے کہ اگرچہ تُو ماہِ مبین ہے، تیری جبین اس نور سے محروم ہے۔
لفظ جبیں کا استعمال: حقیقت سے آشنائی کی حد یہ ہے کہ انسان اپنی جبین کو چمکا دے۔ یہ اُسکی ”تسلیم“ کا اعلان ہے جو اُس نے انتخاب کی طاقت کے بعد چُنی ہے۔ وہ شعور جس نے اُسے مضطرب کیا، حیراں کیا، سراپا جستجو کیا، یہ اسکے شعور کا انعام ہے کہ وہ خدا کی عبادت کر سکتا ہے۔ جب اس کی جبین اُس کے حضور جھکتی ہے تو یہ چاند کی چاندنی سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے۔
تبصرہ
نظم ‘چاند’ میں علامہ اقبال کی شاعری کے ایک اور پہلو جس پر غور کیا جانا چاہیے، وہ اُن کی شاعری کی سائنسی عمل سے مطابقت ہے۔ جس کی نظیر اردو، فارسی اور انگریزی کی شاعری میں کہیں نہیں ملتی۔ اس نظم کے پہلے پانچ اشعار میں یہ سائنسی مطابقت دیکھی جا سکتی ہے۔
اقبالؔ نے دورِ جدید کے شاعر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے فطرت کی شاعری میں ایسی مثال قائم کی ہے جو ورڈزورتھ (William Wordsworth)، شیلی (Percy Bysshe Shelley)، کیٹس (John Keats) کی شاعری میں ملتی ہے، نہ آزادؔ اور حالیؔ اور نہ ہی سعدیؔ اور حافظؔ کی شاعری میں۔ ان شعراء سے متاثر ہونے اور نظم میں تمام تر شعری خوبیاں ہونے کے باوجود، اقبالؔ کی شاعری پڑھنے والا آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ شاعری رومانوی دور (Romantic Age) یا کرونِ وسطی (Middle Age) کی شاعری نہیں۔ اس شاعری میں وہ علمی اور سائنسی پس منظر دیکھا جا سکتا ہے جو دورِ جدید (Modern Age) کا خاصا ہے۔