Skip to content
بانگِ درا 16: صدائے درد

بانگِ درا 16: صدائے درد

نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال

تعارف

مولانا غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ نظم ”صدائے درد“ جون 1902ء کے ”مخزن“ میں شائع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب مُلکی حالات پہلی مرتبہ علامہ اقبال کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوئے اور اُنہوں نے باہمی نفرتوں کا ماتم کِیا۔ یہی افکار و احساسات اُنہوں نے اپنی مشہور نظم ”تصویرِ درد“ میں بھی پیش کیے تھے جو انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں پڑھی گئی تھی۔ اس پوری نظم میں اقبالؔ نے اُن تمام نزاعات کی مذمت کی ہے جن سے ہندوستان کے مختلف طبقوں میں تفرقے کو تقویت پہنچتی تھی۔

بند نمبر 1

جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے

نظم صدائے درد از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
کل نہ پڑناچین نے آنا، بے قراری
کسی پہلوکسی طرح، کسی صورت
محیطاحاطہ کرنے والا، گھیرنے والا
آبِ گنگادریائے گنگا، ہندوؤں کا مقدس دریا
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال اس شعر میں اہلِ ہندوستان کے باہمی نفاق اور انتشار پر نہایت درد مندی سے اظہارِ افسوس کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ قوم کی اِس نااتفاقی کو دیکھ کر ان کا دل جل رہا ہے اور اُنہیں کسی بھی پہلو سے چین و سکون حاصل نہیں ہو رہا۔ اِس شدید ذہنی اور روحانی اضطراب میں انہیں راحت کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ وہ دریائے گنگا کی موجوں میں ڈوب جائیں، جو دراصل اُس اذیت ناک کیفیت سے نجات کی علامت ہے۔ علامہ اقبال کی یہ کیفیت موت کی خواہش نہیں بلکہ قوم کی بدحالی اور باہمی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہونے والے گہرے کرب کا اظہار ہے۔


سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا، یاں تو اک قُرب فراق آمیز ہے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نفاق انگیزپھوٹ ڈالنے والی
وصلمِلنا، مِلاپ
قُربنزدیکی
فراقدُوری
قُربِ فراق آمیزایسی نزدیکی جس میں دوری شامل ہو
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

ہندوستان کی فضا نفاق سے اس قدر بھر چکی ہے کہ یہ گویا قیامت خیز صورت اختیار کر گئی ہے۔ یہاں قُربت کا مفہوم ہی بدل گیا ہے، لوگ ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے بھی دِلوں سے جُدا ہیں اور یہ قُربت دراصل فراق میں ڈھلی ہوئی ہے۔ علامہ کے نزدیک اِس سرزمین میں مختلف قومیں اور فرقے بظاہر ایک ساتھ زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں، مگر حقیقت میں اُن کے درمیان نفرت، بداعتمادی اور دشمنی کی دیواریں حائل ہیں۔ اسی باہمی نفاق کے باعث میل ملاپ کی کوئی حقیقی صورت باقی نہیں رہی اور جو نزدیکی نظر آتی ہے وہ محض ظاہری اور عارضی ہے، جب کہ دل ایک دوسرے سے بالکل بیگانہ ہو چُکے ہیں۔


بدلے یک رنگی کے یہ ناآشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جُدائی ہے غضب

نظم صدائے درد از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
یک رنگیوحدت، اتفاق
خِرمنکھلیان، غلّے کا انبار
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

ایک ہی سرزمین پر رہنے کے باعث لوگوں میں فکر اور عمل کی یک رنگی پیدا ہونی چاہیے تھی، مگر اِس کے برعکس یہاں اجنبیت اور دُشمنی نے جنم لے لیا ہے۔ یہ صورتِ حال اس قدر افسوسناک ہے کہ ایک ہی کھلیان کے دانے، جو فطری طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہونے چاہئیں، آپس میں جُدا دکھائی دیتے ہیں۔ اِس سرزمین میں بسنے والے افراد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چُکے ہیں اور باہمی نفاق و عداوت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ محبت، اخوت اور اتحاد جیسے انسانی اوصاف ناپید ہو کر رہ ہیں۔ علامہ اِس درد انگیز کیفیت کو قوم کے اخلاقی زوال کی علامت قرار دیتے ہیں۔


جس کے پھُولوں میں اخوّت کی ہوا آئی نہیں
اُس چمن میں کوئی لُطفِ نغمہ پیرائی نہیں

نظم صدائے درد از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
اخوّتبھائی چارا، رابطہ، اتحاد
چمنباغ
نغمہ پیرائیگیت گانا یا سنانا، چہچہانا
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جس قوم اور سرزمین میں بھائی چارے، اخوت اور باہمی اتحاد کا جذبہ موجود نہ ہو وہاں شاعری اور نغمہ آفرینی کی کوئی معنویت باقی نہیں رہتی۔ جس باغ کے پھولوں میں اخوت کی خوشبو نہ رچی بسی ہو، اُس باغ میں گیت گانا اور راگ الاپنا بے لطف اور بے اثر ہوتا ہے۔ علامہ صاحب کے نزدیک شاعری محض لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ قوم کی روح کی ترجمان ہوتی ہے، اور جب قوم کی فضا نفاق اور تفرقے سے آلودہ ہو تو شاعر کے نغمے بھی اثر کھو بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایک درد مند شاعر کی حیثیت سے سوال اُٹھاتے ہیں کہ ایسی بے روح اور منقسم فضا میں وہ کس طرح شعر تخلیق کریں اور اپنے نغمے لوگوں کے دِلوں تک کیسے پہنچا سکیں۔


لذّتِ قُربِ حقیقی پر مِٹا جاتا ہوں میں
اختلاطِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
قُربِ حقیقیاصلی نزدیکی
مِٹا جاناکسی بات یا چیز سے بہت لگاؤ ہونا
اختلاطمیل جول، تعلق
موجہ و ساحللہر اور کِنارہ
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال اس شعر میں ظاہری قربت کے بجائے حقیقی اتحاد اور قلبی ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ انہیں ایسی نزدیکی محبوب ہے جو فکر و عمل کی وحدت پر مبنی ہو، نہ کہ وہ میل جول جو محض مجبوری، تصادم اور عارضی نوعیت رکھتا ہو۔

اِسی لیے وہ موج اور ساحل کے اختلاط سے گھبراتے ہیں، کیونکہ یہ ملاپ اضطرار کا نتیجہ ہوتا ہے، اس میں ٹکراؤ اور کشمکش شامل ہوتی ہے اور یہ دیرپا بھی نہیں رہتا؛ لہر آتی ہے، ساحل سے ٹکرا کر واپس لوٹ جاتی ہے۔ لہریں کنارے سے اس لیے ٹکراتی ہیں کہ اُسے توڑیں اور کنارہ لہروں کے جوش کو روکنے کی غرض سے دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک ایسا میل جول جس میں محبت، اخوت اور یک رنگی نہ ہو، بے معنی اور ناپسندیدہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہزار قالب ہو کر بھی ایک جان بن جائیں۔

یہ نظم اُس عہد کے پس منظر میں کہی گئی ہے جب ہندوستان فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں تھا اور ہندو مسلم تعلقات شدید کشیدگی کا شکار تھے۔ علامہ اقبال نے اس صورتِ حال کو گہرائی سے محسوس کیا اور جان لیا کہ اس تصادم پر مبنی قربت سے حقیقی اتحاد ممکن نہیں، اسی لیے وہ اس نااتفاقی سے گھبرا کر حقیقی اخوت، باہمی محبت اور پائیدار اتفاق کے خواہاں نظر آتے ہیں، جسے انہوں نے موج و ساحل کے بامعنی استعارے میں نہایت مؤثر انداز سے پیش کیا ہے۔

بند نمبر 2

دانۂ خرمن نما ہے شاعرِ معجزبیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں

نظم صدائے درد از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
دانۂ خِرمن نُماوہ دانہ جو اناج کے ڈھیر کا نمونہ ہو
خِرمنکھلیان، غلّے کا انبار
معجز بیاںجس کے بیان میں معجزے جیسا اثر ہو، یعنی جس کا بیان عقل کو عاجز کر دے
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال اس شعر میں شاعر اور قوم کے باہمی رشتے کو نہایت بلیغ استعارے کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک دانہ پورے خرمن کی نمائندگی کرتا ہے، اسی طرح شاعر اپنی پوری قوم کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اُس کے احساسات و کیفیات کو زبان دیتا ہے۔

مگر جس طرح خِرمن کی بربادی سے دانے کی انفرادی حیثیت بھی باقی نہیں رہتی، اُسی طرح اگر قوم ہی منتشر اور بے وجود ہو جائے تو شاعر کا وجود اور اُس کی معنویت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ جب تک لوگ اپنے باہمی اختلافات بھلا کر مشترکہ مقاصد کے لیے متحد نہیں ہوتے، وہ حقیقی معنوں میں قوم نہیں بن سکتے بلکہ محض متفرق گروہوں کی صورت میں رہتے ہیں۔ اگرچہ شاعر کو خدا کی طرف سے معجز بیان قوت عطا کی جاتی ہے اور وہ تمام انسانوں کو ایک انسان سمجھتا ہے، لیکن جب معاشرے میں اتفاق، محبت اور اخوت کا جذبہ مفقود ہو تو شاعر کی آواز بے اثر ہو جاتی ہے اور اُس کی کوئی نمایاں حیثیت باقی نہیں رہتی۔


حُسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

حلِ لغات:

الفاظمعنی
خودنمااپنے آپ کو دِکھانے (نمایاں) کرنے والا
مائلتوجہ کرنے، دیکھنے والا، راغب
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال اس شعر میں شاعر کے وجود اور اُس کی شاعری کے اثر کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ حُسن، خواہ وہ قدرتی ہو یا تخلیقی، اُس وقت تک نمایاں نہیں ہوتا جب تک کوئی اُسے دیکھ کر تحسین نہ کرے، بالکل اُسی طرح جیسے شمع اپنی روشنی محفل کے بغیر نہیں دِکھا سکتی۔ گویا اقبال کے نزدیک شاعر کی حیثیت بھی اسی اصول کے تابع ہے: جب قوم متحد و متفق نہ ہو اور سماجی فضا پذیرائی اور محبت سے خالی ہو، تو شاعر اپنی تخلیق، اپنے فن اور اپنے پیغام کو قوم پر کیسے ظاہر کر سکے گا؟


ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

نظم صدائے درد از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
ذوقِ گویائیبولنے کا شوق، مراد شاعری
جوہرخوبی، ہُنر، خاصیت
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

چونکہ ہندوستان میں لوگ ایک متحد قوم نہیں بن سکے، اِس لیے شاعر کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنی فنی صفت، یعنی ذوقِ گویائی، ترک کر دے اور خاموش ہو جائے؟ گویا اگر شاعر یہ ذوقِ خاموشی اختیار کر لے تو شاعر کے آئینے سے جو جوہر اور آب و تاب نکلتی ہے وہ بھی معدوم ہو جائے۔ اقبالؔ کے نزدیک آئینہ، شاعر کی تخلیقی صفت اور اندرونی توانائی کی علامت ہے، اور شعر گوئی اُس آئینے کی روشنی کو ظاہر کرتی ہے۔گویا علامہ اقبال اپنی یاس و اضطراب کی شدید کیفیت کا اظہار کرتے ہیں اور سوال اُٹھاتے ہیں کہ معاشرتی نااتفاقی اور اِنتشار کے باوجود اُن میں جو تخلیقی صفات ہیں وہ آخر کیوں ختم نہیں ہو جاتیں اور اُن کے اظہار کی راہ کیونکر بند نہیں ہوتی۔


کب زباں کھولی ہماری لذّتِ گفتار نے!
پھُونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
زبان کھولنابولنا
لذّتِ گُفتاربات کہنے کا لطف
پھونک ڈالاجلا ڈالا
آتشِ پیکارلڑائی کی آگ
(نظم ”صدائے درد“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال اِس شعر میں انتہائی افسوس اور درد مندی کے ساتھ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ میں نے اُس لمحے شعر گوئی کا آغاز کیا جب کہ ہندوستان اِفتراق و نفاق کی آگ میں جل رہا ہے، اِس حالت میں میرے نغمے کون سنے گا اور میرے پیغام پر کون عمل کرے گا؟

تبصرہ

1905ء سے لے کر 1945ء تک ہندوستان کی تاریخ اقبالؔ کی اسی نظم کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اقبالؔ نے ہندو مسلمان کو ایک ہی خِرمن کے دانوں سے تعبیر کِیا ہے۔ یہ تصور اُنہوں نے سر سیّد احمد خاں مرحوم سے مستعار لیا ہے جنہوں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان ایک دلہن ہے اور ہندو مسلمان اُس کی دو آنکھیں ہیں اور اُس کا حسن دونوں آنکھوں کی بقاء پر موقوف ہے۔ اگر ایک آنکھ جاتی رہے تو یہ دلہن کانی ہو جائے گی لیکن اگر کسی کو کانی دلہن ہی پسند ہو تو اس میں بے چارے سرسیّد یا اقبالؔ کا کیا قصور ہے!

اُن دِنوں اقبالؔ اہلِ ملک کی ذہنیت سے اس درجہ مایوس ہو چُکے تھے کہ وہ اِس دیس ہی کو ترک کر دینا چاہتے تھے۔ اِس نظم کے حسب ذیل اشعار جو بانگِ درا میں نہیں ہیں، اس حقیقت پر شاہد ہیں:-

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments