نظم ”غلام قادر رُہیلہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم غلام قادر رُہیلہ میں علامہ اقبال نے جن کرداروں کا ذکر کِیا ہے وہ تاریخی اور واقعی کردار ہیں۔
غلام قادر خاں، نواب ضابطہ خاں کا بیٹا اور امیرالاُمرا نواب نجیب الدولہ کا پوتا تھا، جس نے مرہٹوں کا اقتدار ختم کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی تھی۔ چنانچہ پانی پت کی تیسری لڑائی 1761ء کے بعد بھارت میں مرہٹوں کا اقتدار بالکل ختم ہو گیا تھا۔ جب تک نواب نجیب الدولہ زندہ رہے، مرہٹوں کو سر اُٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔ 1770ء میں نواب کا انتقال ہو گیا تو مرہٹوں نے شاہ عالم ثانی کے وزیر نجف علی خاں کو اپنے ساتھ ملالیا اور پھر شاہ عالم کو بھی اپنی طرف کر لیا۔ چنانچہ شاہ عالم نے مرہٹوں کا آلۂ کار بن کر 1772ء میں روہیلوں پر حملہ کیا اور پتھر گڑھ کے قلعے کا سخت محاصرہ کیا۔ جب روہیلوں نے ہتھیار ڈال دیے تو مرہٹہ اور شاہی لشکر نے روہیلہ عورتوں کو گھسیٹ کر اپنے خیموں میں لے جا کر اُن کی شدید بے حُرمتی کی۔ جادُو ناتھ سرکار لکھتا ہے کہ ”مغل اور مرہٹہ سپاہی رُہیلہ سرداروں کی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خیموں میں لے گئے اور۔۔۔“ تفصیل کے لیے دیکھیے زوالِ سلطنتِ مغلیہ۔ غلام قادر خاں، جو اُس وقت صرف 12 یا 13 سال کا بچہ تھا، یہ دل خراش منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، مگر کچھ کر نہ سکا اور انتقام کے لیے موقع کا منتظر رہا۔ آخرکار جب اسے موقع ملا تو 1788ء میں دہلی پر قبضہ کر کے شاہ عالم ثانی کو اندھا کر دیا۔ غلام قادر اُسی سال 1788ء میں قتل ہوا۔
نظم ”غلام قادر رُہیلہ“ کی تشریح
رُہیلہ کس قدر ظالم، جفاجُو، کینہپرور تھا
نکالِیں شاہِ تیموری کی آنکھیں نوکِ خنجر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
جفا جُو | ظلم کرنے والا، ظالم |
کِینہ | کینہ سے مراد ہے دل میں کسی کے خلاف چھپی ہوئی دشمنی، بغض یا بد نیتی رکھنا، یعنی کسی کی بات یا عمل پر ناراضی دل میں رکھ لینا اور معاف نہ کرنا |
کِینہ پروَر | بغض اور عداوت پالنے والا |
شاہِ تیموری | مراد ہے شاہ عالم ثانی سے |
تشریح:
غلام قادر رُہیلا ایک نہایت ظالم، جفاجُو اور کینہپرور شخص تھا۔ اُس کے دِل میں مغل خاندان کے خلاف شدید بغض اور انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اپنے باپ ضابطہ خاں کے زمانے میں مغل دربار سے جو ذاتی یا سیاسی ناانصافیاں ہوئیں، اُن کا بدلہ لینے کے لیے اُس نے وحشیانہ ظلم کیا، حتیٰ کہ مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نوکِ خنجر سے نکال دیں۔ یہ فعل محض ظلم نہیں بلکہ انتقام اور نفرت کے عمیق کینے کا مظہر تھا۔
دیا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں ستمگر نے
یہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
اہلِ حرم | بیگماتِ شاہی |
سِتم گَر | ظالم، ظلم کرنے والا |
تشریح:
جب غلام قادر رُہیلا نے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کو معذول کر دیا، تو اُس نے ظلم کی انتہا کر دی۔ اس نے شاہی حرم کی باعزت اور پاک دامن خواتین (جو ساری زندگی پردے میں رہیں)کو حکم دیا کہ اُس کے سامنے رقص کریں۔ یہ حکم صرف ایک فرد پر ظلم نہیں تھا، بلکہ شرافت، عصمت اور شاہی وقار کی توہین تھی۔ اقبالؔ اس منظر کو قیامت سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ جو صنف عزت و احترام کی علامت تھی، وہ ذلت کے تماشے میں بدل گئی۔
بھلا تعمیل اس فرمانِ غیرت کُش کی ممکن تھی!
شہنشاہی حرم کی نازنینانِ سمن بر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تعمیل | ماننا، عمل کرنا |
غیرت کُش | غیرت کو مِٹانے والا |
نازنینان | نازنین کی جمع۔ خوبصورت اور نازک عورتیں |
سمَن بر | چنبیلی کا سا جسم رکھنے والی، نازک اندام |
تشریح:
غور کیجیے، کیا شہنشاہی حرم کی نازک اندام، پاک دامن بیگمات، جن کے جسم چنبیلی کی طرح لطیف اور جن کی زندگیاں حیا، وقار اور عصمت کی آئینہدار تھیں، اِس غیرتکُش فرمان کی تعمیل کر سکتی تھیں؟ یہ حکم ایسا تھا جسے ماننا تب ہی ممکن ہوتا جب غیرت، شرم اور نسوانی وقار بالکل مر چکے ہوتے۔
بنایا آہ! سامانِ طرب بیدرد نے اُن کو
نہاں تھا حُسن جن کا چشمِ مہر و ماہ و اختر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سامانِ طرف | خوشی کا سامان |
نہاں | پوشیدہ، چھُپا ہوا |
چشم | آنکھ |
مہر و ماہ و اختر | مہر: سورج، ماہ: چاند، اختر: ستارہ |
تشریح:
کس قدر افسوسناک بات ہے کہ غلام قادر رہیلہ نے بے دردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان خواتین کو عیش و عشرت کا سامان بنایا جن کا حُسن سورج، چاند اور ستاروں کی نگاہوں سے بھی پوشیدہ تھا یعنی جو انتہائی باپردہ خواتین تھیں
لرزتے تھے دلِ نازک، قدم مجبورِ جُنبش تھے
رواں دریائے خُوں، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
لرزنا | کانپنا |
مجبورِ جُنبِش | ہِلنے (یعنی رقص پر مجبور) |
دریائے خوں | خون کے آنسو |
دیدۂ تر | اشک بار آنکھیں، روتی آنکھیں |
تشریح:
بیگمات کے نازک دل کانپ رہے تھے، لیکن اُن کے قدم رقص کرنے کے لیے حرکت پر مجبور تھے۔ اُن کی آنکھوں سے خون آنسو بہہ رہے تھے کیونکہ وہ ظلم، شرم اور اپنے وقار کی پامالی کو دیکھ کر اندر سے ٹوٹ رہی تھیں اور شرم و حیا کی شدت اُن کے جسم میں لرزش پیدا کر رہی تھی۔
یونہی کچھ دیر تک محوِ نظر آنکھیں رہیں اُس کی
کِیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بارِ مِغفَر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
محو | مصروف |
بار | بوجھ |
مِغفَر | خود۔ لڑائی میں سر پر پہننے کی فولادی ٹوپی جس سے چہرہ اور گردن بھی ڈھک جاتے ہیں۔ |
تشریح:
روہیلہ کچھ دیر تک تو رقص کا یہ منظر دیکھتا رہا، پھر اُس نے گھبرا کر خود کو مِغفر کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔ مِغفر: لڑائی میں سر پر پہننے کی فولادی ٹوپی جس سے چہرہ اور گردن بھی ڈھک جاتے ہیں۔
کمر سے، اُٹھ کے تیغِ جاںستاں، آتشفشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تیغ | تلوار |
جاں ستاں | جان لینے والی |
آتش فشاں | آگ برسانے والی |
سبق آموز تابانی | چمکنا سیکھنے والے |
انجم | نجم کی جمع۔ ستارے |
جوہر | (تلوار کی) چمک (اور تیزی) |
تشریح:
اس کے بعد اُس نے اپنی کمر سے لوگوں کی جان لینے والی اور آگ اُگلنے والی تلوار کھول دی۔ یہ ایسی تلوار تھی کہ اس کا جوہر ستاروں کو بھی چمک دمک اور روشنی کا سبق سکھاتا تھا
رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا
تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشمِ احمر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تقاضا | مطالبہ |
چشمِ احمر | سُرخ آنکھ جس میں نیند آرہی ہو |
تشریح:
اُس نے خنجر اپنے سامنے رکھا اور پھر کُچھ سوچ کر لیٹ گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اُس کی سُرخ آنکھیں نیند کا تقاضا کر رہی ہوں
بُجھائے خواب کے پانی نے اخگر اُس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
اخگر | انگارے |
درد انگیز | دِل کو دُکھ پہنچانے والا |
تشریح:
غلام قادر تھوڑی دیر لیٹا رہا اور پھر اپنی آنکھوں کے شعلے نیند کے پانی سے بجھا دیے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے شہزادیوں کے رقص کے درد انگیز منظر سے اُس کی آنکھیں شرما گئی ہوں۔
پھر اُٹھّا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقّدر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تیموری حرم | مُغلیہ بیگمات |
مقدر | نصیب، قسمت |
تشریح:
اس کے بعد وہ تھوڑی دیر تک اسی عالم میں آنکھیں بند کیے ہوئے پڑا رہا لیکن کب تک۔ آخر کار وہ اپنا سر جھٹک کر اِس طرح اُٹھ بیٹھا جیسے نیند سے بیدار ہوا ہو۔ چند لمحے بعد وہ شاہی محل کی خواتین سے کہنے لگا کہ تمہیں اپنی قسمت پر شکایت نہیں کرنی چاہیے۔
مرا مَسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلّف تھا
کہ غفلت دُور ہے شانِ صف آرایانِ لشکر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مَسنَد | شاہی تخت |
بناوٹ | تکلف، ظاہر داری |
تکلُف | تصنع، غفلت، بے خبری |
صف آرایانِ لشکر | لشکر کی صف بندی کرنے والے |
تشریح:
غلام قادر شہزادیوں سے کہتا ہے کہ یہ جو میں اپنی تلوار ار خنجر کو ایک طرف رکھ کر مسنَد پر سو رہا تھا تو یہ صرف ایک بناوٹی بات تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ لشکروں کو جنگ کے لیے آراستہ کرتے ہیں وہ غافل نہیں ہو سکتے۔ غفلت اُن سے کوسوں دُور رہتی ہے
یہ مقصد تھا مرا اس سے، کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تیمور کی بیٹی | مراد مغلیہ خاندان کی عورت، تیمور کی اولاد۔ مغلیہ خاندان کا سلسلۂ نسب تیمور سے مِلتا ہے۔ |
غافل |
تشریح:
یہ جو مَیں بناوٹی طور پر سورہا تھا، تو اِس سے میرا مقصد یہ تھا کہ شاید تیموری خاندان کی کوئی شہزادی مجھے غافل پا کر میرا خنجر اُٹھائے اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرا کام تمام کر دے۔
مگر یہ راز آخر کھُل گیا سارے زمانے پر
حِمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حِمیّت | غیرت |
تشریح:
لیکن ایسا کُچھ بھی نہ ہوا اور اس طرح یہ راز سارے زمانے پر آشکارا ہو گیا کہ تیمور کے گھرانے میں غیرت و حمیّت باقی نہ رہی، اگر ہوتی تو کوئی تیموری شہزادی جان پر کھیل کر مجھے قتل کر ڈالتی۔
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر