”عالمِ برزخ“ از علامہ اقبال
فہرست
تمہید
اس بغایت مؤثر تمثیلی نظام ”عالمِ برزخ“ میں علامہ اقبال نے قبر، مُردہ اور صدائے غیب کے مابین مکالمہ قلمبند کیا ہے، جس کا مرکزی یا بنیادی تصوّر یہ ہے کہ:-
(1) جن لوگوں نے غلامی کی بدولت اپنی خودی کو ذلیل یعنی مُردہ کر دیا ہے، وہ مرکر بھی دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ غلامی بعد الموت صلاحیت کو فنا کردیتی ہے۔
(2) غلامی اتنی بڑی لعنت ہے کہ زمین بھی غلام کی میّت سے نفرت کرتی ہے۔ مقصد اس نظم سے یہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے دِلوں میں انگریز کی غلامی سے نکلنے کی آرزو پیدا ہو۔ راقم الحروف کی دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ اگر مسلمان نوجوان اِس نظم کو بار بار پڑھیں تو مذکورہ بالا مقاصد میں کامیابی یقین ی ہے۔
سہولت کے لیے اِِس نظم کا خلاصہ لکھتا ہوں:-
(1) مُردہ نے قبر سے پوچھا کہ قیامت کسے کہتے ہیں۔
(2) قبر نے جواب دیا کہ قیامت ہر موت کا موشیدہ تقاضا ہے۔
(3) مُردہ نے کہا۔ لیکن افسوس ہے کہ مجھے وہ موت نہیں آئی جس کا پوشیدہ تقاضآ قیامت ہے۔
(4) جب قبر نے یہ جواب سُنا تو بہت پریشان اور متحیّر ہوئی، کیونکہ اُسے اِس بات کا علم نہ تھا کہ موت کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کا پوشیدہ تقاضا قیامت نہیں ہے، یعنی جس کے بعد زندگی نہیں ہے۔
(5) اِس لیے کارکنانِ قضا و قدر (صدائے غیب) نے یہ سراحت کی کہ اے قبر! یہ مُردہ سچ کہتا ہے:
؏ مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مَردوں کا ہے کام
چونکہ یہ غلام تھا اِس لیے مر کر بھی زندہ نہیں ہو سکتا۔
(6) یہ سُن کر قبر نے کہا کہ اب میں سمجھی کہ میری خاک اِس قدر سوز ناک کیوں ہے! اِس کے بعد قبر، عالمِ غیظ و غض میں اسرافیل کو پُکارتی ہے کہ جلد صُور پھونک دے، تاکہ مجھے اِس ناپاک میّت سے نجات مِل جائے۔
(7) اِس پر کارکنانِ قضا و قدر نے پھر زمین کو متنبّہ کیا کہ اطمینان رکھ! قیامت اپنے وقتِ مقررہ پر ضرور آئے گی، کیونکہ:
؏ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
(8) یہ سُن کر زمین نے اللہ تعالی سے عرض کی کہ اے خدا! ایسا دور کب آئے گا، بلکہ کیوں نہیں آتا جبکہ انسان دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات حاصل کر سکے گا۔
(حوالہ: شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
برزخ
اِس نظم کا عنوان ہے ”عالمِ برزخ“۔ برزخ کے لغوی معنی ہیں ”روک“ یا ”پردہ“۔ تصوّف کی اسطلاح میں برزخ کہتے ہیں اُس شخص کو جس میں دو شانیں پائی جاتی ہیں اور مذہب کی اصطلاح میں برزخ کہتے ہیں “مرنے اور جی اُٹھنے کے درمیانی وقفہ کو“، مثلاً زیدؔ کا انتقال ہو گیا، تو وفات کے بعد سے نفخِ سور تک وہ جس عالم میں رہے گا اُسے عالمِ برزخ کہتے ہیں۔
(حوالہ: شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
مُردہ – اپنی قبر سے
کیا شے ہے، کس امروز کا فردا ہے قیامت
اے میرے شبستاںِ کُہن! کیا ہے قیامت؟
قیامت کیا ہے؟ یہ کس آج (امروز) کے ہونے والی کل (فردا) ہے؟ اے میری قبر! اے میری پرانی خواب گاہ (شبستانِ کہن)! مجھے بتا کہ قیامت آخر کسے کہتے ہیں؟
قبر
اے مُردۂ صد سالہ! تجھے کیا نہیں معلوم؟
ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت!
اے کئی سو سال سے سوئے ہوئے مُردے (مُردۂ صد سالہ)! کیا تُو نہیں جانتا کہ قیامت کہتے ہیں دوبارہ جی اُٹھنے کو، اور ہر شخص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گا۔ کیونکہ یہ تو اس کی شخصیت کا تقاضا ہے۔۔ یعنی قیامت؛ موت کا لازمی نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسا دِن ہے جو ہر مرنے والے کو پیش آنا ہے۔
مُردہ
جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت
اُس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں مَیں
(قبر کا یہ جواب سُن کر مُردہ کہتا ہے) اے میرے تاریک گھر! در اصل میں ایسی موت کا شکار ہی نہیں ہوا کہ جو قیامت، یعنی دوبارہ کی زندگی کا تقاضا کرے۔
ہر چند کہ ہوں مُردۂ صد سالہ و لیکن
ظُلمت کدۂ خاک سے بیزار نہیں مَیں
اگرچہ مجھے اس دنیا سے گزرے ہوئے کئی سو سال بیت چکے ہیں لیکن ابھی بھی اپنے مٹی کے اس تاریک گھر (ظلمت کدۂ خاک) سے، جس کا نام قبر ہے، اُکتایا (بیزار) نہیں ہوں۔ میں جہاں ہوں وہیں اچھا ہوں، چنانچہ قیامت کے دن بھی اپنے اس تاریک گھر کو نہیں چھوڑوں گا۔
ہو رُوح پھر اک بار سوارِ بدنِ زار
ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں
اگر قیامت اس دِن کو کہتے ہیں کہ مُردہ اجسام میں روح داخل کر کے انہیں دوبارہ زندہ کیا جائے، تو ایسی قیامت سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ بات یہ ہے کہ جو لطف مجھے قبر کے اس تاریک خانہ میں روح اور زندگی کے بغیر مِل رہا ہے، وہ زندگی میں کہاں ہے۔ زندہ ہو کر کام کاج کا بوجھ اُٹھانا اور عمل اختیار کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ میں اسی قبر میں اچھا ہوں کہ جہاں نہ محنت ہے، نہ مشقّت ہے، بلکہ آرام ہی آرام ہے۔ اس لیے میں نہیں چاہتا کہ میرے اس کمزور اور مِٹے ہوئے بدن پر دوبارہ روح سوار ہو۔ (بے عمل ہونے کی وجہ سے مُردہ حیاتِ نو کو دائمی موت پر ترجیح دے رہا ہے)
صدائے غیب
نے نصیبِ مار و کژدُم، نے نصیبِ دام و دَد
ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگِ ابَد
قبر نے جب مُردے کا یہ جواب سُنا تو بہت متعجب ہوئی کہ یہ کیسا مُردہ ہے جو دوبارہ زندہ نہیں ہونا چاہتا، یا اسے کس قسم کی موت آئی ہے کہ جس کے بعد زندگی نہیں ہوگی؟ تو صدائے غیب نے یہ کہہ کر اُس کی حیرانی کو دُور کیا کہ: دائمی (ہمیشہ ہمیشہ کی) موت یعنی مرگِ ابد۔۔۔ یہ تو سانپ (مار)، بچھو (کژدم) اور درِندوں (دام و دد) کی بھی قسمت میں نہیں ہے۔ ہمیشہ کی موت تو صرف اور صرف غلام قوموں کے حصے میں آتی ہے۔
؏ موت ہے اِک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)
بانگِ اسرافیل اُن کو زندہ کر سکتی نہیں
رُوح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسَد
جو لوگ زندگی میں غلام تھے یعنی زندگی سے محروم تھے، جن کا بدن زندگی میں بھی روح سے خالی تھا، وہ مرنے کے بعد کیسے زندہ ہو سکتے ہیں؟ بانگِ اسرافیل سے صرف وہ لوگ زندہ ہو سکیں گے، جو مرنے سے پہلے زندہ تھے۔ غلام قوموں کے افراد تو زندگی ہی میں مر جاتے ہیں، اِس لیے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے حقوق کی خاطر نہیں لڑتے، اپنی حالت نہیں بدلتے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے مایوسی کی تصویر بن کر بیٹھے رہتے ہیں، یہاں تک کہ دائمی موت ان کا مقدّر ہو جاتی ہے۔
ترا تن رُوح سے ناآشنا ہے
عجب کیا! آہ تیری نا رَسا ہے
تنِ بے رُوح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے
(حوالہ: بالِ جبریل)
مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذیرُوح کی منزل ہے آغوشِ لَحد
صدائے غیب ایک قائدہ، ایک کلیہ، ایک اصول بیان کرتی ہے کہ اگرچہ ہر روح والے ہر زندہ آدمی کو ایک نہ ایک دِن مر کر قبر کی گود میں جانا ہے، لیکن مرنے کے بعد دوبارہ جینا صرف اور صرف آزاد لوگوں کی قسمت میں لِکھا گیا ہے۔ یہ دنیا دارالعمل ہے، جو شخص اس دنیا میں بے عملی کی وجہ سے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت نہ دے سکا، اسے حیاتِ ابدی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟!
؎ خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)
قبر – اپنے مُردے سے
آہ، ظالم! تُو جہاں میں بندۂ محکوم تھا
مَیں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک
صدائے غیب سُن کر اور مردے کی دوبارہ نہ زندہ ہونے کی خواہش جان کر قبر چِلا اُٹھتی ہے کہ اے ظالم شخص جو میری گود میں سویا ہوا ہے! تُو نے خود پر ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ، مجھ پر بھی بڑا ظلم کیا ہے کہ غلام ہو کر میری گود میں آرام کرنے کے لیے آ گیا۔ مرگِ دوام (ہمیشہ کی موت) کی تیری یہ خواہش اور صدائے غیب نے مجھ پر یہ نکتہ واضح کیا، ورنہ آج تک میں نہ سمجھ سکی تھی کہ آخر میری خاک میں اتنی جلن کیونکر پیدا ہوگئی! یہ صرف اس لیے ہوئی کہ تُو زندگی میں غلامی جیسی لعنت میں گرفتار تھا، تیرا بدن عمل سے خالی تھا۔۔ یعنی تُو کبھی زندہ تھا ہی نہیں۔ تُو اپنے حصے کی آگ، اپنی بے عملی کا ثبوت اپنے ساتھ ہی لے آیا اور میری خاک کو بھی سوز ناک بنا دیا!
بانگِ درا میں ”سیرِ فلک“ کے نام سے ایک نظم مِلتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دِن اقبالؔ سیرِ افلاک کو گئے اور پھِرتے پھراتے جہنم میں جا نکلے، دیکھا کہ بالکل خالی ہے اور اس میں ایک چنگاری تک موجود نہیں۔ فرشتے سے پوچھا کہ یہ کس قسم کا جہنم ہے؟ اُس نے جواب دیا:-
؎ اہلِ دُنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں
(حوالہ: بانگِ درا: سیرِ فلک)
تیری مَیّت سے مری تاریکیاں تاریک تر
تیری مَیّت سے زمیں کا پردۂ نامُوس چاک
اے ظالم! میں تو پہلے ہی سے تاریکیوں کا گھر تھی۔ میں منتظر تھی کہ کوئی ایسی جانِ پاک میری گود میں آئے، جو میری تاریکیوں کو اُجالے میں بدل دے۔ لیکن افسوس! صد افسوس! کہ تجھ جیسے غلام کا بوجھ مجھے اُٹھانا پڑ رہا ہے! تُو میری تاریکیوں کو کیا دُور کرتا! بلکہ تیری نعش سے تو وہ اندھیرا، جو میرے اندر پہلے سے موجود تھا؛ اور بڑھ گیا ہے۔ تیری نعش نے تو زمین کا پردۂ عزت بھی پھاڑ دیا ہے۔ تیرے وجود سے زمین کی شدید تر توہین ہو گئی!
الحذَر، محکوم کی مَیّت سے سو بار الحذَر
اے سرافیل! اے خدائے کائنات! اے جانِ پاک!
بھاگو! دوڑو! غلام کی لاش سے سو بار پناہ مانگو! میں دُعا کرتی ہوں کہ خدا محکوم کی میّت سے ہر قبر کو بچائے! اے اسرافیل جلد صور پھونک تاکہ زمین تہہ و بالا ہو جائے اور میں اِس ناپاک مُردے کے وجود سے پاک ہو جاوں! اے خدائے کائنات مجھے اس ناپاک مُردے سےنجات دے! اور اس کی جگہ کوئی پاک جان میرے سپرد کر۔ کوئی ایسی جان جو غلامی کی لعنت سے پاک ہو۔
صدائے غیب
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظامِ ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرارِ وجود
یہ سُن کر کارکنانِ قضا و قدر نے کہا کہ اگرچہ قیامت سے اِس کائنات کا درہم برہم ہوجانا لازمی ہے۔ لیکن یہ آشوب (ہنگامہ) بہت ضروری ہے کیونکہ اس کی بدولت ”اسرارِ وجود“ یعنی دنیا اور اس زندگی کے راز عیاں ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں ہر شخص نے جو بھی کام کیے ہیں، اُن کے نتائج اِسی بدولت سامنے آئیں گے۔ اور پرانی زندگی کی جگہ نئی زندگی لے گی۔
زلزلے سے کوہ و دَر اُڑتے ہیں مانندِ سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
صدائے غیب نے زلزلے کی مثال دے کر دنیا اور اس کے بعد کی زندگی کی صورتِ حال سمجھائی ہے کہ وہ زلزلہ جس سے پہاڑ، گھاٹیاں، درّے اور آبادیاں تباہ ہو جاتی ہیں اور بادل کی مانند اُڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔۔ اُسی زلزلے کی بدولت پہاڑوں سے نئے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں، ان سے ان کے درمیان کے میدان سیراب ہونے لگتے ہیں اور وہ ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ قیامت بے شک اس کائنات کو، جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، برپا کر دے گی لیکن اس سے ایک نئی دنیا، ایک نئے جہاں اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گا۔
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود
غور کرو! نئی تعمیر کے لیے پُرانی عمارت کو یکسر منہدم کر دینا پڑتا ہے۔ چونکہ قیامت کے بعد زندگی کو نئی بنیادوں پر اُستوار کیا جائے گا اور حیاتِ انسانی کا نیا دور شروع ہوگا، اس لیے اِس پُرانے نظام کو بالکل ختم کر دیا جائے گا۔ اسی ”تخریب“ یا فنائے کُلّی میں زندگی کی تمام مشکلات کا حل پوشیدہ ہے۔ وہ اس طرح کہ مثلاً موجودہ زندگی میں ہم جسم کی قید میں گرفتار ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آئندہ زندگی کی نوعیّت ایسی ہو کہ ہم جسم کی قید سے آزاد ہو جائیں۔
زمین
آہ یہ مرگِ دوام، آہ یہ رزمِ حیات
ختم بھی ہوگی کبھی کشمکشِ کائنات!
مُردہ، قبر اور صدائے غیب کی ساری باتیں سننے کے بعد زمین افسوس کرتے ہوئے کہتی ہے کہ:-
افسوس اس موت پر کہ جو ہمیشہ کے لیے ہو گی۔ بلاشبہ غلامی اِس دُنیا میں سب سے بڑی لعنت ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ ”مرگِ دوام“ ہے اور اِس غلامی کا باعث یہ ہے کہ طاقتور قومیں کمزور قوموں پر حکومت کرنا چاہتی ہیں۔ دنیا کے اندر یہ جو انسانی تگ و دو کا عمل ہے، یہ کسی دن ختم بھی ہوگا یا نہیں۔ مراد ہے کہ اس کے خاتمے پر ہی میں مطمئن ہوں گی اور یہ خاتمہ قیامت برپا ہونے پر ہی ہوگا۔
عقل کو ملتی نہیں اپنے بُتوں سے نجات
عارف و عامی تمام بندۂ لات و منات
آج خاص و عام۔۔ سب لوگ اپنی اپنی ذاتی خواہشات کے بندے ہوتے ہیں۔ یعنی خدا کے قوانین کی پابندی کے بجائے اپنی خواہشات کی پرستش کرتے ہیں۔ اس دور میں عشق کا جذبہ مغلوب ہو چکا ہے اور ہر طرف عقل کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ آج عقل انہیں یہ سمجھاتی ہے کہ دوسروں کو اپنا محکوم بنا کر اُن سے مختلف قسم کے فوائد حاصل کرو۔ ایسی عقل جس نے غیر اللہ اور غیر یقینی کے بت تراش رکھے ہیں اور آدمی عام ہو یا خاص ہو، خدا کی معرفت کا دعوی کرنے والا ہو یا اس کی پہچان سے غافل ہو، سب اس عقل کے گھڑے ہوئے طرح طرح کے اور رنگ رنگ کے بتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں اور اللہ کے قوانین کی بجائے اپنی خواہشات کی پرستش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف شیطنت پھیلی ہوئی ہے۔
خوار ہُوا کس قدر آدمِ یزداں صفات
قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات
(ایسے ہی بتوں کی پرستش کے نتیجہ میں) خدائی صفات کا حامل انسان ذلیل ہو کر رہ گیا ہے۔ جس دنیا کا انسان ایسا خوار ہو، اس دنیا کی بقاء محسوس کرنے والے دِل اور حقائق پر نظر رکھنے والی آنکھ پر ناگوار بوجھ ہے۔ چونکہ خدا پرست کی نگاہ میں ایسا نظام بلاشبہ نفرت کے لائق ہے جس میں انسان، انسان کا غلام ہو۔ اس لیے خدا پرستوں کا فرض یہ ہے کہ اس کو تہہ و بالا کر دیں۔
اس دور میں مغرب کی تہذیب و ثقافت، علم و ہنر اور سیاسی داؤ پیچ کی بنا پر وہ آدمی جو خدا کی صفتوں کا مظہر (آدمِ یزداں صفات) کہا جاتا ہے، جتنا ذلیل ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آدم کو اللہ تعالی نے اپنا نائب اور خلیفہ کے طور پر زمین پر بھیجا تھا۔ اس میں اپنی صفتوں کے اظہار سے اسے جملہ مخلوق کا سردار اور پر دوسری مخلوق سے افضل بنایا تھا۔ ظاہر ہے ایسا آدمی شیطان سے مات نہیں کھا سکتا لیکن آج کے دور کا آدمی اپنے مقام اور درجہ کو بھلا کر شیطان کے قدموں میں گِرا ہوا ہے۔ اس نے اپنی شرافت اور بزرگی کو خود ہی روند ڈالا ہے۔ عہدِ حاضر کا یہ جہان جس میں آدمیّت اور انسانیت کی اس حد تک تذلیل ہوئی ہے کہ شیطان بھی اس سے شرماتا ہے، اس قابل نہیں ہے کہ قائم رہے۔ یہ ایک اچھے اور صحیح انسان کے قلب اور نگاہ پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ نہ اس میں اس کے دِل کی تسکین کی کوئی بات ہے اور نہ نگاہ کی تسلّی کی۔ بلکہ صورتِ حال اس سے اُلٹ ہے۔
کیوں نہیں ہوتی سحَر حضرتِ انساں کی رات؟
انسان؛ جو مسجودِ ملائک اور نائبِ خدا تھا، آج اپنی حقیقت کو بھول کر ایسا شیطان صِفت بن چکا ہے کہ اس کی زندگی کا جہان رات کی تاریکی کی طرح بے نور اور خوفناک ہے۔ آخر اس کی دنیائے زندگی کی یہ رات کب ختم ہو گی، کب وہ اسے روشن صبح میں تبدیل کرے گا۔ کب اسے خیال آئے گا کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ ہر مخلوق، یہاں تک کہ شیطان بھی اس کے تابع ہے۔ عہدِ حاضر کے علوم و فنون، عقل و دانِش، تہذیب و تمدّن، ثقافت و معاشرت وغیرہ سے جو اہلِ مغرب نے ہمیں دی ہے، یہ امید رکھنا کہ وہ انسانی زندگی کی تاریک رات کو روشن صبح میں تبدیل کر سکے گی، فضول ہے۔ اس لیے ایسے جہان کے قائم رہنے سے، جس میں انسان شیطنت کی تاریکی میں زندگی گزار رہا ہے، اس کا نہ قائم رہنا ہی بہتر ہے یا پھر کوئی ایسا مردِ مومن پیدا ہو جائے، جس کے ہاتھوں میں زمان و مکان کے گھوڑے کی لگام ہو، تاکہ وہ اسے اپنے فکر و عمل کے نقش سے پھر سے انسانوں کے لیے رہنے کے قابل بنا دے۔
نوٹ: اقبالؔ نے زمین کی زبان سے خدا پرستوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایسے ناپاک نظام کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنے کی کوشش کریں اور اَس کے بجائے حکومتِ الہیہ قائم کریں۔ جس میں کوئی انسان، دوسرے انسان کا غلام نہ ہو۔
حوالہ جات
- شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ارمغانِ حجاز از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ارمغانِ حجاز از اسرار زیدی