Skip to content
ضربِ کلیم 30: ہندی اسلام

ضربِ کلیم 30: ہندی اسلام

”ہندی اسلام“ از علامہ اقبال

تعارف

اِس سے پہلے اقبالؔ نے ”ہندی مسلمان“ کی حالت پر تبصرہ کیا ہے۔ اِس نظم میں اُنہوں نے ”ہندی اسلام“ کا نقشہ کھینچا ہے۔

(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف  سلیم چشتی)

YouTube video

نظم ”ہندی اسلام“ کی تشریح

ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

حلِ لغات:

وحدتِ افکارخیالات کی یگانگت، خیالات کا ایک جیسا ہونا، یکساں عقائد
مِلّتمسلمان قوم
الہامخدا کا پیغام، کسی خیال کا دِل میں نازل ہونا
الحادکفر، بے دینی، دین سے پھِر جانا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 30: ہندی اسلام)

تشریح:

جس طرح افراد کی زندگی خورد و نوش پر منحصر ہے، اُسی طرح قوم کی زندگی وحدتِ افکار (خیالات کی یگانگت) پر موقوف ہے، یعنی قوم اُس وقت ترقی کر سکتی ہے اور حقیقی معنی میں اس پر لفظ قوم کا اطلاق ہو سکتا ہے، جب اس کے تمام افراد ہم خیال ہو جائیں۔ ہم خیال کے بھی دو معنی ہیں؛ ایک تو یہ کہ عقائد کے لحاظ سے افراد میں اختلاف نہ ہو، سب لوگ یکساں عقائد کے پابند ہوں، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اُن کے سامنے نصب العین بھی ایک ہی ہو۔ اس صورت میں قوم کے افراد ایک ہی طریقہ پر سوچ بچار کرتے ہیں۔ اسی کو وحدتِ افکار کہتے ہیں۔ یہ وحدتِ افکار اس قدر ضروری چیز ہے کہ اگر قوم کے کسی فرد کو ایسا الہام ہو جس سے یہ وحدت فنا ہوتی ہو تو وہ الہام بھی مفید نہیں، بلکہ قوم کے حق میں خالص الحاد (بے دینی) ہے۔

اسلام چاہے کسی زمانے یا کسی ملک میں کیوں نہ ہو، ایک ہی اسلام ہے۔ اگر اسلام اپنی صحیح روح میں رائج ہو تو وہ کسی ملک اور کسی زمانے میں ہوتے ہوئے خیالات کی وحدت رکھے گا اور اس بنا پر وہ ایک زندہ قوت بن جائے گا لیکن جب یہ وحدت ختم ہو گئی اور مختلف اقوام اور ممالک اور ادوار کے مسلمانوں نے اپنے اپنے اسلامی عقائد گھڑ لیے تو مسلمان ذلیل ہو گئے۔ ایسی حالت میں ان کا الہام (خدائی پیغام) بھی متاثر ہو کر بے دینی اور کفر تک پہنچ گیا کیونکہ اس میں اصلیت باقی نہیں رہی۔


وحدت کی حفاظت نہیں بے قُوّتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خدا داد

حلِ لغات:

قُوّتِ بازواپنی طاقت
عقلِ خدادادخدا کی دی ہوئی عقل
حلِ لغات (ضربِ کلیم 30: ہندی اسلام)

تشریح:

ملت (مسلمان قوم) جیسا کہ پہلے شعر میں کہا گیا ہے فقط خیالات اور عقائد کے اتحاد کی بنا پر ہی قائم رہ سکتی ہے، اس لیے وحدت اور یگانگت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان کے پاس طاقت ہو۔ یہاں اللہ کی دی ہوئی عقل یا مناظرے یا بحثیں کام نہیں دیں گی۔ اس لیے مسلمان کو عقل اور علم کے ساتھ ساتھ قوتِ بازہ (اپنی طاقت) بھی پیدا کرنی چاہیے۔ واضح ہو کہ، وحدت کی حفاظت حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے یعنی قوم کے پاس طاقت ہونی لازمی ہے۔ اگر کوئی فرد اس وحدت کو فنا کرنے کی کوشش کرے تو قوم، طاقت سے کام لے کر اس شخص کی اصلاح کر سکے۔ یعنی اُسے سمجھائے اور اگر وہ راہِ راست پر نہ آئے تو پھر اُسے قرار واقعی سزا دے سکے۔ ایسے مفسدوں کا علاج عقلِ خدادا (خدا کی دی ہوئی عقل) سے ممکن نہیں ہے۔ یعنی اگر اُن سے مناظرہ کیا جائے تو وہ باز نہیں آ سکتے۔ ان کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ طاقت سے کام لے کر ان کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ جس طرح پورے جسم کی بقاء کے لیے ڈاکٹر، ایک اُنگلی کاٹ دیتا ہے اور ہر شخص اس کے اس فعل کو اچھا سمجھتا ہے۔ اسی طرح پوری قوم کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مفسِدوں کا خاتمہ کیا جائے۔


اے مردِ خدا! تجھ کو وہ قُوّت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

حلِ لغات:

قُوّتطاقت
غارپہاڑ کی کھوہ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 30: ہندی اسلام)

تشریح:

اے مسلمان! چونکہ تو حاکمِ وقت نہیں ہے، چونکہ تُو حکمراں نہیں ہے اس لیے وہ قوت جس سے بات منوائی جاتی ہے تیرے قبضے میں نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ تُو کسی غار میں جا کر راہبانہ زندگی (ایسی زندگی میں میں انسان دنیا ترک کر دے) بسر کر اور اپنے خیال کے مطابق اپنے لیے ایک ایسا مذہب ایجاد کر لے جو تجھے محکومی اور غریبی کی تعلیم دے سکے۔


مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصّوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

حلِ لغات:

مسکینیغریبی، عاجزی
محکومیغلامی
نومیدیِ جاویدہمیشہ کی نااُمیدی / مایوسی
ایجادوجود میں لانا، کوئی نئی چیز بنانا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 30: ہندی اسلام)

تشریح:

اسلام کے مطابق تو قوتِ بازو ضروری ہے۔ اسلام تو فرماں روائی اور عظیم امیدوں کا پیغام ہے۔ اے مسلمان! جب تُو عقائد کی وحدت سے بیگانہ ہو چکا ہے اور حفاظتِ دین کی تجھ میں طاقت بھی نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ اصل تصوف کو چھوڑ کر وہ تصوف اور اسلام ایجاد کر کہ جس میں غریبی، عاجزی، غلامی اور ہمیشہ کی ناامیدی (نومیدیِ جاوید) کا سامان ہو۔ اقبالؔ نے یہ بات غلط صوفیوں پر طنز کے طور پر کہی ہے ورنہ اصل تصوف تو مقصودِ اسلام ہے۔


مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

حلِ لغات:

مُلّامولوی
ناداںکم عقل، کم علم، کم فہم، بے خبر، بھولا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 30: ہندی اسلام)

تشریح:

اقبالؔ نے یہاں بھی رسمی اور پیشہ ور ملاؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہند(برِ صغیر) میں انگریز حاکم کی طرف سے مسلمان کو نماز روزہ کرنے اور دوسری اسلامی رسوم ادا کرنے کی اجازت ہے اس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آزاد ہے حالانکہ آزادی اسلام اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب مسلمان کے پاس حکمرانی ہو، طاقت ہو اور وہ اسلام کے سارے اصولوں اور احکامات کو رائج بھی کرے اور ان کی حفاظت کرنے کی بھی اس میں اہلیت ہو۔ اسلام ایک مستقل نظامِ حیات ہے اور نماز اس نظام کا صرف ایک جزو ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ انگریز قوم نے مسلمان کو قدرے آزادی دے دی ہے کہ کلب میں جا سکتا ہے، سینما دیکھ سکتا ہے، گھوڑ دوڑ، جوا کھیل سکتا ہے، ہوٹل میں شراب پی سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ لیکن اسلام کو پوری طرح محبوس کر رکھا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اسلامی زندگی بسر کرنا چاہے تو اسے اس کی سزا فوراً ملے گی کیونکہ انگریز کی نگاہ میں اسلامی زندگی بسر کرنے سے امنِ عامہ میں خللِ عظیم واقع ہوتا ہے اور اسی فتنہ کی روک تھام کے لیے ”سیفٹی ایکٹ“ ایجاد کیا گیا تھا۔ علمائے حق نے تو انگریزی دور میں یہ فتوی دیا تھا کہ یہاں چند شرعی احکام کی اجازت کی بنا پر اسلام کو آزاد نہیں کہا جا سکتا، اس بنا پر یہ دارالحرب ہے۔نام نہاد ملاؤں نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا، اقبالؔ نے اسی حوالے سے یہ شعر کہا ہے۔

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments