”ہندی مکتب“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
”ہندی مکتب“ اگرچہ اقبالؔ نے 1935ء میں لکھی تھی، لیکن ”ہنوز“ باسی نہیں ہوئی بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد تو ”سہ آتِشہ“ ہوگئی ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”ہندی مکتب“ کی تشریح
اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
حضرت علامہ اقبال موجودہ اسکولوں اور کالجوں کی تعلیم و تربیت سے مایوس ہو کر دُکھی دِل سے فرماتے ہیں کہ:-
اے اقبالؔ! ہندوستان کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کے سامنے علمِ خودی کا نام مت لے، ان کے لیے خود شناسی اور خود معرفتی کا یہ درس موزوں ہی نہیں ہے؛ کیونکہ ان تعلیمی اداروں کے طالب علم انگریزی تہذیب و تمدن کے زیرِ اثر اپنی قومی اور مذہبی شناخت سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔ ان کو خودی کے مضامین راس نہیں آئیں گے۔
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
انگریزی نصاب اور تہذیب و تمدن نے درس گاہوں میں پڑھنے والے ان شاہبازوں سے چڑیاں بنا کر رکھ دیا ہے۔
؎ وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے، رہ و رسمِ شاہبازی
(حوالہ: بالِ جبریل)
اس لیے محکوم (یعنی غلام) ذہنیت رکھنے والے اِن ممولوں کی نظر سے باز (یعنی آزاد قوم) کے احوال و مقامات پوشیدہ ہی رہیں تو بہتر ہے۔کیونکہ محکوم قوم کے افراد، حکمراں قوم کے جذبات اور تصوّرات کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ یہی مناسب ہے کہ ان غلام ذہنیّتوں کو آزاد زندگی کی خوشگواریوں سے روشناس ہی نہ کیا جائے۔
بقول اکبر الہ آبادی:-
؎ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سَیر ہیں محکوم کے اوقات!
مثال کے طور پر محکوم اور حاکم کے تصوّرِ زمان (زمانے کا تصوّر) میں بھی فرق ہوتا ہے۔ آزاد کی زندگی کا ایک پل محکوم کی زندگی کے ایک سال کے برابر ہوتا ہے۔ چونکہ محکوم رات، دِن، حاکم کے ظلم و ستم سہتا رہتا ہے، اس لیے زندگی کے ماہ و سال اسے بہت طویل معلوم ہوتے ہیں (جس طرح عاشق کو فراق کی رات طویل معلوم ہوتی ہے)۔ اور حاکم چونکہ ہمیشہ خوش رہتا ہے، اس لیے خوشی کی گھڑیاں اسے بہت مختصر معلوم ہوتی ہیں۔ اسی نکتہ کو کسی ہندی شاعر نے اِس طرح بیان کیا ہے:۔
؎ ایّام مصیبت کے تو کاٹے نہیں کٹتے
دِن عیش کے گھڑیوں میں گذر جاتے ہیں کیسے
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ اَبدیّت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات
آزاد حکمراں قوم کا ہر لحظہ یا ہر دِن، اُس کے استحکام میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ لیکن محکوم کا ہر لحظہ یا ہر روز اسکے لیے ایک نئی مصیبت لاتا ہے اور اُس پر اخلاقی موت طاری کرتا رہتا ہے۔
یعنی دِن (زمان) تو ایک ہی ہے۔ لیکن وہی دِن، آزاد کے حق میں پیامِ عبدیت اور وجہ استقامت بن جاتا ہے، اور وہی دِن محکوم کے حق میں مصائبِ ناگہانی کا موجب بن جاتا ہے۔
”شیر کی ایک دن کی زندگی‘ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔“
(شیرِ مشرق ٹیپوؒ سلطان شہید)
مراد یہ ہے کہ آزاد قوم کا آزاد شخص ایک ایک لمحہ میں عملی اور یادگار کام کرتا رہتا ہے، جس سے وہ خود بھی بنتا ہے اور اس کی قوم بھی بنتی ہے۔۔ لیکن غلام قوم کا شخص غلامی کی وجہ سے ذِلّت کی زندگی بسر کرتا ہے، عمل سے خالی ہوجاتا ہے اور اُس کا ایک ایک لمحہ زندگی نہیں۔ بلکہ موت ہوتا ہے۔ وہ اپنے آقاؤں کی خواہش پر جیتا ہے اور اپنی خودی اور معرفت کھو بیٹھتا ہے۔
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منوّر
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خُرافات
آزاد قوم کے تصوّرات اور خیالات، حقیقت پسندی کی روشنی سے منوّر ہوتے ہیں، یعنی وہ قوم حقائق کی دنیا میں رہتی ہے اور حقائقِ حیات کا مقابلہ کرتی ہے۔ لیکن محکوم (یعنی غلام) قوم کے خیالات اور افکار، محض خرافات اور توہّمات کا انبار ہوتے ہیں، جنہیں حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
مثلاً آزاد قوم کے افراد یہ سوچتے ہیں کہ ممکن ہے ہمسایہ مُلک ہم پر چڑھائی کردے، کیونکہ اس کا رویہ تین سال سے معاندانہ (نامہربان) ہے۔ اس لیے ہمیں رات دِن دفاع کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے۔ لیکن محکوم قوم کے افراد یہ سوچتے ہیں کہ مرتی جیتی دنیا ہے، خدا معلوم چار سال زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ لاؤ آج رات چار دوستوں کو گھر بُلا کر قوالی سُن لیں!
محکوم کو پِیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
محکوم اور حاکم، یا غلام اور آزاد میں چوتھا اور سب سے نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ غلام قوم کے افراد کو ہر وقت پیروں کی کرامات کی دھُن لگی رہتی ہے۔ غلام قوم پیر پرستی تعویذ گنڈوں کے سہارے فلاح ڈھونڈتی ہے۔ اور اگر کِسی زندہ پیر کی کرامات مشاہدہ میں نہیں آتیں تو اولیائے گذشتہ ہی کی کرامات کا تذکرہ کرکے اپنے دِل کو خوش کرلیتے ہیں۔ لیکن آزاد قوم کا ہر فرد بجائے خود ایک ”زندہ کرامت“ ہوتا ہے اس اُس کا ہر عمل معجزہ نظر آتا ہے۔
آزاد اقوام ہمیشہ میدانِ عمل میں سرگرم رہتی ہیں۔ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرتی ہیں اور ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیتی ہیں کہ انہیں مافوق الفطرت سہاروں کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی آسمانی معجزے کی منتظر نہیں رہتیں کیونکہ وہ یہ جانتی ہیں ہیں کہ:-
؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(شاعر: مولانا ظفر علی خان)
محکوم کے حق میں ہے یہی تربِیَت اچھی
موسیقی و صُورت گری و علمِ نباتات!
غلام قوموں کے مدرسوں میں حاکم قومیں ایسا نصاب رائج کرتی ہیں جس سے وہ حقیقی علم حاصل نہ کرسکیں اور آزادی کی لذت سے بھی محروم کردی جائیں۔ گانا بجانا، تصویریں بنانا اور نباتات قسم کے علوم سے واقفیت حاصل کروانا ہی ان کی تربیت (پرورش و اصلاح) کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آزاد قوموں کے نصاب میں وہ علوم ہوتے ہیں جو انہیں حقیقت سے آشنا کرسکیں، جبکہ غلام قوموں کو وہ علوم پڑھائے جاتے ہیں جن سے ان میں زوال پذیری کی صورتیں پیدا ہوں۔
؎ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناء اوّل، طاؤس و رباب آخر
(حوالہ: بالِ جبریل)
نوٹ
میں نے اِس نظم میں ”آزاد“ سے، آزاد اور حکمران قوم یا فرد مراد لیا ہے۔ لیکن ”آزاد“ سے مومن بھی مراد ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مسلمان اگر مومن ہوجائے تو وہ غلام نہیں رہ سکتا، چونکہ ایمانؔ اور غلامیؔ ایک دوسرے کی ضِد ہیں، اس لیے ایک شخص میں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتیں۔ میرے عقیدے کی رُو سے مردِ مومن، کا غلام ہونا ایسا ہی ناممکن ہے، جیسے کسی دروازہ کا بیک وقت کھُلا بھی ہونا اور بند بھی ہونا۔ مومنؔ یا تو آزاد ہوگا، یا آزادی کے لیے جد و جہد کرتا ہوگا۔ (خواہ غازی ہو یا شہید) تیسری کوئی صورت از روئے قرآن اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
اگر تیسری کوئی صورت جائز ہوتی تو سلطان ٹیپوؒ شہید بھی اُس صورت سے استعفادہ کرسکتا تھا، لیکن افسوس کہ قرآن میں تیسری صورت مذکور نہیں ہے اور اس آیت مبارکہ کی موجودگی میں ہو بھی کیسے سکتی ہے:۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
“آپ ﷺ فرما دیجیے کہ میری نماز، اور تمام عبادات، اور میری زندگی، اور میری موت یعنی میرا جینا اور مرنا، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔”
(حوالہ: القرآن: سورۃ الانعام: آیت نمبر 165)
یعنی اگر میری زندگی میں کوئی ساعت ایسی آجائے، جب غیر اللہ کے لیے زندگی بسر کرُوں، یعنی غیر اللہ کی اطاعت کروں، تو وہ زندگی کافرانہ زندگی ہوجائے گی۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی