”غلاموں کے لیے“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم غلاموں کے لیے میں اقبالؔ نے یہ نُکتہ بیان کِیا ہے کہ اگر کسی غلام کو آزادی حاصل کرنے کی تمنّا ہو تو اِس کی صورت یہ ہے کہ اپنے اندر ”ذوقِ یقین“ پیدا کر لے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
تشریح
حِکمتِ مشرق و مغرب نے سِکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اِکسیر
حلِ لغات:
حِکمت | دانائی، فلسفہ |
نُکتہ | عقل یا سمجھ کی بات، وہ بات جسے ہر ایک نہ سمجھ سکے، علمی یا فلسفیانہ بات، راز کی بات |
اِکسیر | وہ مرکّب جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سستی دھات کو سونے یا چاندی میں تبدیل کر سکتی ہے۔ |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میں نے مشرق و مغرب کے فلسفہ پر بہت غور و فِکر کیا ہے اور اِس کے نتیجے میں مُجھ پر ایک باریک بات واضح ہوئی ہے جو غلاموں کے لیے اِکسیر کا حُکم رکھتی ہے۔
واضح ہو کہ اِکسیر وہ مرکّب ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سستی دھات کو سونے یا چاندی میں تبدیل کر سکتی ہے۔ یعنی علامہ فرماتے ہیں کہ جس طرح اکسیر ادنیٰ دھاتوں کو اعلیٰ دھاتوں میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ٹھیک اُسی طرح یہ نُکتہ غلاموں کی حالت بدلنے میں مفید ہے اور اِس پر عمل سے اُنہیں آزادی جیسی نعمت حاصل ہو سکتی ہے۔
دین ہو، فلسفہ ہو، فَقر ہو، سُلطانی ہو
ہوتے ہیں پُختہ عقائد کی بِنا پر تعمیر
حلِ لغات:
عقائد | عقیدہ کی جمع ــ عقیدہ سے مُراد ہے کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دِل میں مضبوط اور راسخ کر لینا۔ |
بِنا | بُنیاد |
تشریح:
اب اقبالؔ اِس راز سے پردہ اُٹھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دین، فلسفہ، فقر و درویشی اور شاہی۔۔۔ غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے لیے عقیدہ کی پُختگی بہت ضروری ہے۔
اِس اصل کی روشنی میں اگر غلام قوم کے افراد آزادی کے طالب ہوں تو اُنہیں سب سے پہلے اپنے عقائد کو پُختہ کر لینا چاہیے، یعنی پہلے یہ یقین پیدا کر لینا چاہیے کہ آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے اور کسی قوم کو حق حاصل نہیں کہ ہمیں غُلام بنائے، اِس لیے ہم ضرور غلامی کی زنجیریں توڑ کر رہیں گے۔ اِس محکم یقین کے بعد عملِ پیہم کی مدد سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ واضح ہو کہ قرآن مجید نے یقینِ محکم کو ایمان اور عملِ پیہم کو عملِ صالح سے تعبیر کیا ہے۔
حرف اُس قوم کا بے سوز، عمل زار و زبُوں
ہو گیا پُختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!
حلِ لغات:
بے سوز | جذبوں کی حرارت سے خالی |
زار و زبُوں | ذلیل و خوار، خستہ |
تہی | خالی |
ضمیر | دِل |
تشریح:
جس قوم کا دِل پُختہ عقائد سے خالی ہوتا ہے، اُس کی گفتگو میں کسی قسم کی تاثیر (اثر) نہیں ہوتی اور اُس کے اعمال میں کوئی سرگرمی یا طاقت پیدا نہیں ہو سکتی۔ مراد یہ کہ یقینِ محکم کے بغیر غلامی کی زنجیریں نہیں کٹ سکتیں۔ نظم کے تینوں اشعار کا بُنیادی مضمون یہی ہے کہ چاہے زندگی کا کوئی میدان کیوں نہ ہو، یقین اور ایمان کا پُختہ ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی غلام فرد یا غلام قوم بھی اپنے اندر آزادی کا پُختہ یقین پیدا کر لے تو وہ بھی غُلامی سے چھُٹکارا حاصل کر سکتی ہے۔ بقول علامہ اقبال:-
؎ یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیرِ مِلّت ہے
یہی قوّت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ مِلّت ہے
(حوالہ: بانگِ درا: طلوعِ اسلام)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی