نظم ”مردِ بزرگ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
ایک مردِ بزرگ یا مردِ مومن کیا ہوتا ہے اور اُس کی خصوصیات کیا ہیں، ضربِ کلیم کی اس نظم میں علامہ اقبال نے یہی بات واضح فرمائی ہے۔
نظم ”مردِ بزرگ“ کی تشریح
اُس کی نفرت بھی عمیق، اُس کی محبّت بھی عمیق
قہر بھی اُس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| عمیق | گہری، شدید |
| قہر | غضب، غلبہ، غصہ |
| شفیق | جس میں شفقت ہو، مہربان |
تشریح:
یہ شعر علامہ اقبال کے تصورِ مومنِ کامل کی وضاحت کرتا ہے۔ مردِ بزرگ (مومنِ کامل) کی محبت اور نفرت دونوں گہری اور اصولی ہوتی ہیں۔ وہ باطل، کفر اور ظلم سے شدید نفرت کرتا ہے کیونکہ یہ اللہ کے قانون کے خلاف ہیں، اور اسی طرح وہ حق، دینِ اسلام اور نیکی سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، حتیٰ کہ اُن کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اُس کی یہ کیفیت قرآن کی اس تعلیم کے مطابق ہے کہ:-
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ
محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل
(سورۃ الفتح: آیت 29)
شعر کے دوسرے مصرع میں اقبالؔ یہ نکتہ واضح کرتے ہیں کہ ایسے مومنِ کامل کا قہر بھی دراصل شفقت کا ہی ایک روپ ہوتا ہے۔ اگر وہ اللہ کے بندوں پر سختی کرتا ہے تو اِس کا مقصد سزا دینا یا ظلم کرنا نہیں بلکہ اصلاح اور بہتری ہوتا ہے، جیسے استاد شاگرد کی تربیت کے لیے سختی کرتا ہے۔ نیز اُس کی سختی ان اعمال اور طریقِ زندگی کے خلاف ہوتی ہے جو قانونِ الہی کے منافی ہوں، اِس لیے بظاہر سخت نظر آنے والا مردِ کامل حقیقت میں احسان، رحمت اور خیر خواہی کا مظہر ہوتا ہے۔
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اُس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| تقلید | پیروی، نقل، کسی کے قدم بہ قدم چلنا |
| تقاضا | ضرورت |
| تخلیق | کوئی نئی چیز پیدا کرنا |
تشریح:
اگرچہ اُس کی پرورش ایسے ماحول میں ہوتی ہے جہاں تقلید، روایت پرستی اور جمود کا غلبہ ہوتا ہے، مگر وہ اِس اندھیرے میں گم نہیں ہو جاتا۔ وہ اپنے گرد و پیش میں رائج پرانی رسموں اور فرسودہ خیالات کو جوں کا توں قبول نہیں کرتا بلکہ اُن پر غور و فکر کرتا ہے۔ اُس کی بصیرت اُسے اِس قابل بناتی ہے کہ وہ تقلید کے ماحول میں رہتے ہوئے بھی اس سے اوپر اٹھ سکے اور اپنے معاشرے میں فکری اور عملی تبدیلی کی بنیاد رکھے۔ چنانچہ وہ نئی راہیں تلاش کرتا ہے، نئے خیالات پیش کرتا ہے اور ایک پاکیزہ اور بہتر طرزِ زندگی کی تخلیق کے لیے کوشش کرتا ہے۔ وہ اندھی تقلید کے بجائے اجتہاد، جدت اور تخلیق کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ نئی راہیں پیدا کرنا اُس کی سرِشت اور مزاج کے عین مطابق ہے۔ چونکہ ایک مردِ بزرگ اللہ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے، اس لیے ”کُلَّ یومٍ ھو فی شان (ہر آن وہ (اللہ تعالی) نئی شان میں ہے) سورۃ الرحمن: آیت 29“ کا عملی اظہار اُس کی زندگی میں نظر آتا ہے۔
انجمن میں بھی میَسّر رہی خلوَت اُس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جُدا، سب کا رفیق

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| انجمن | بزم، محفل |
| خلوَت | تنہائی |
| رفیق | دوست، ساتھی |
تشریح:
یہ شعر ایک مردِ مومن کی ایک نہایت لطیف اور گہری کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ وہ بظاہر لوگوں کی محفل میں رہتا ہے، سب سے میل جول رکھتا ہے اور معاشرتی زندگی سے کٹا ہوا نہیں ہوتا، مگر اُس کے باطن میں تنہائی قائم رہتی ہے۔ اُس کا دل اللہ کے سوا کسی اور کو محبوب یا مقصدِ حیات نہیں بناتا، اِس لیے وہ ہجوم میں رہتے ہوئے بھی رضائے الٰہی کو فراموش نہیں کرتا۔ انجمن میں بیٹھ کر بھی اُسے خلوت کا لطف میسر رہتا ہے، کیونکہ اُس کی توجہ دنیاوی دکھاوے کے بجائے اعلیٰ نصب العین پر مرکوز رہتی ہے۔ جس طرح شمع محفل میں موجود ہو کر سب کو روشنی پہنچاتی ہے مگر اپنی حیثیت میں سب سے جُدا رہتی ہے، اسی طرح اللہ کا برگزیدہ بندہ بھی سب کا رفیق ہوتا ہے مگر دل کے اعتبار سے سب سے الگ۔ وہ لوگوں کے درمیان رہ کر اُن کی رہنمائی کرتا ہے، اُن کے لیے فائدہ اور روشنی کا سبب بنتا ہے، مگر اُس کا دل خدا کی یاد سے بندھا رہتا ہے۔ یوں ہاتھ اُس کے کام میں اور دِل اُس کا ذکرِ خدا میں مگن رہتا ہے۔
مثلِ خورشیدِ سحَر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| خورشید | سورج |
| سحر | صبح |
| تابانی | روشنی، چمک دمک |
| آزادہ | آزاد |
| دقیق | گہرا، باریک، نازک |
تشریح:
یہ شعر مردِ مومن کی فکری اور ذہنی عظمت کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے۔ اُس کی فکر کی روشنی صبح کے سورج کی مانند ہوتی ہے جو طلوع ہوتے ہی اندھیروں کو دور کر دیتی ہے۔ اِسی طرح اُس کی ذہانت، بصیرت اور فراست نہایت روشن ہوتی ہے، اسی لیے وہ حق و باطل میں امتیاز کر لیتا ہے۔ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے”مومن کی فراست سے ڈرو ،کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“، اس لیے اُس کی سوچ غلامی، جہالت اور باطل نظریات کے اندھیروں کو مٹا دیتی ہے اور لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا کرتی ہے۔
اُس کی باتیں بظاہر سادہ، بے تکلف اور عام فہم ہوتی ہیں، مگر اُن کے معانی نہایت گہرے، باریک اور دقیق ہوتے ہیں۔ وہ مشکل اور بھاری الفاظ کے بغیر بڑی حکمت کی بات کہہ جاتا ہے۔ جس طرح سورج کی روشنی بظاہر سادہ نظر آتی ہے مگر اس کی حقیقت اور تاثیر پر غور کیا جائے تو اُس میں بے شمار راز پوشیدہ ہیں، اسی طرح مردِ مومن کی سیدھی سادی گفتگو میں بھی عارفانہ رموز اور حکیمانہ نکات چھپے ہوتے ہیں جو اہلِ نظر پر آہستہ آہستہ منکشف ہوتے ہیں۔
اُس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جُدا
اُس کے احوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| اندازِ نظر | دیکھنے کا انداز |
| جُدا | الگ |
| احوال | حال کی جمع، حالات |
| محرم | واقفِ حال، آشنا |
| پیرانِ طریق | طریقت کے پیر و مرشد |
تشریح:
یہ شعر مردِ مومن کی فکری آزادی اور روحانی بلندی کو واضح کرتا ہے۔ وہ دنیا اور اُس کے معاملات کو عام دنیا داروں کے زاویۂ نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھتا ہے، اسی لیے اُس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا ہوتا ہے۔ یہ دنیا کہ جہاں دُنیا دار مفاد، دولت یا طاقت کے لیے ضمیر فروشی کو بھی جائز سمجھ لیتے ہیں، وہاں مومن ہرگز اسباب کو مقصد نہیں بناتا۔ وہ فقر و فاقہ میں زندگی گزار لیتا ہے مگر ایمان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، اور یہی اصولی استقامت اُسے اپنے عہد سے ممتاز بنا دیتی ہے۔
مردِ مومن کے ایسے بلند روحانی مقام اور گہرے باطنی احوال سے اِس زمانے کے رسمی اور دنیا آلود ”پیرانِ طریق“ واقف نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ کہنہ ذہن، ظاہرداری یا محض رسم و روایات کے اسیر ہوں، اُن میں وہ بصیرت ہی نہیں ہوتی کہ وہ مردِ مومن کے کردار، فکر اور عمل کو سمجھ سکیں۔ اُس کے روحانی مقامات اور اس کی باطنی کیفیات انہی لوگوں پر منکشف ہوتی ہیں جو خود اخلاص، بصیرت اور زندہ شعور کے حامل ہوں۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی






