”پیامِ صبح“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”پیامِ صبح“ مشہور امریکی شاعر لانگ فیلو (Henry Wadsworth Longfellow) کی ایک نظم سے ماخوذ ہے۔
لانگ فیلو 1807ء میں بمقام پورٹ لینڈ (امریکہ) میں پیدا ہوا۔ مختلف درسگاہوں میں ادبیات کا پروفیسر رہا۔ 1882ء میں وفات پائی۔ بہت سادہ نظمیں لکھتا تھا اور اس کا پورا مجموعۂ کلام فضائلِ اخلاق کا درس ہے۔ وہ خود بھی بڑا ہی شریف اور نیک دِل انسان تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شکار کے لیے گیا اور ایک جانور مارا۔ اس کے تڑپنے کی کیفیت دیکھ کر اس قدر متاثر ہوا کہ پھر عمر بھر شکار نہ کھیلا۔ امریکہ کے شاعروں میں وہ سب سے زیادہ مشہور اور ہر دِلعزیز ہے۔
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)
نظم ”پیامِ صبح“ کی تشریح
اُجالا جب ہُوا رخصت جبینِ شب کی افشاں کا
نسیمِ زندگی پیغام لائی صبحِ خنداں کا
جب رات کے پاتھے پر بکھری ہوئی افشاں (تفصیل آئندہ سلائیڈ میں) کی روشنی ماند پڑ گئی یعنی ستارے ڈوب گئے اور رات ختم ہو گئی تو زندگی ہنستی مسکراتی صبح (صبحِ خنداں) کا پیغام لائی۔ پہلے مصرع میں اقبالؔ نے عملِ تجسیم سے کام لیا ہے یعنی رات کو عورت تصور کیا گیا جس کا حُسن بڑھانے کے لیے اُس کے ماتھے پر افشاں چُنی گئی۔ اس مصرع میں ایک اور لطف انگیز پہلو یہ ہے کہ اقبالؔ نے بظاہر روشنی اور اجالے کے رخصت ہونے کا ذکر کیا ہے لیکن در حقیقت خاتمہ رات اور اس کی تاریکیوں کا ہو رہا ہے۔
جبینِ شب کی افشاں: شاعر نے رات کو ایک عورت فرض کر کے اس کے ماتھے پر افشاں چُنی ہے۔ افشاں پہلے زمانہ میں مقیش (سونے یا چاندی کا تار) باریک کرکے دلہن کی پیشانی پر چھِڑک دیا جاتا تھا۔ جو مومی شمع کی مدھم روشنی میں ستاروں کی طرح چمکتا تھا۔ جبینِ شب کی افشاں کا اُجالا رخصت ہو گیا؛ یعنی صبح ہو گئی۔ یہ مصرع اقبال کے شاعرانہ کمال کی دلیل ہے کہ انہوں نے رات کی تاریکی کی بجائے ”افشاں“ کا اُجالا کہہ کر اپنا مطلب ادا کیا۔ جبینِ شب کی افشاں سے چھوٹے چھوٹے ستارے مُراد ہیں۔
جگایا بُلبلِ رنگیں نوا کو آشیانے میں
کنارے کھیت کے شانہ ہِلایا اُس نے دہقاں کا
صبح نے دِلکش گیت گانے والی بُلبُل (بُلبُلِ رنگیں نوا) کو اس کے گھونسلے (آشیانے) میں جگا دیا، وہ خوب چہچہانے لگی اور اسی طرح کھیت کے کنارے کسان (دہقاں) کا کندھا ہلایا، یعنی وہ بیدار ہو گیا اور جا کر کھیت کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گیا۔
طلسمِ ظلمتِ شب سُورۂ و النُّور سے توڑا
اندھیرے میں اُڑایا تاجِ زر شمعِ شبستاں کا
صبح نے رات کی تاریکی کا جادو سورۂ والنور سے توڑا یعنی سورج طلوع ہو گیا اور تاریکی چھٹ گئی۔ اس (صبح) نے رات کے وقت سجائی ہوئی محفل/انجمن کی شمع کا تاجِ زر (سونے کا تاج) اندھیرے میں یعنی روشنی سے اُڑا دیا۔ ”تاجِ زر“ سے مراد شمع کی لو ہے اور شمع کا گُل ہونا بجائے خود صبح کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔
سورۂ نور قرآن مجید کی 24 ویں سورۃ ہے۔ اقبالؔ نے نورِ آفتاب کو سورهٔ نور سے تعبیر کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نورِ آفتاب نے رات کی تاریکی کو مِٹا دیا۔
پڑھا خوابیدگانِ دَیر پر افسونِ بیداری
برہمن کو دیا پیغام خورشیدِ دُرَخشاں کا
بُت خانے میں سونے والوں (خوابیدگانِ دیر) پر اس نسیم نے جگانے کا منتر (افسونِ بیداری) پڑھا یعنی انہیں جگا دیا اور برہمن کو یہ پیغام دیا کہ چمکتا ہوا سورج نکلنے والا ہے۔ اُٹھ اور اُس کی پوجا کر لے۔
خوابیدگانِ دیر: بتخانہ کے وہ پجاری جو رات گئے تک بتوں سے لَو لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ لغوی معنی ہیں بت خانوں یا مندروں میں سونے والے۔ افسونِ بیداری: جاگنے کا منتر۔ پہلے زمانہ میں مارگزیدہ (سانپ کے ڈسے ہوئے) پر فی الحقیقت پنڈت لوگ افسونِ بیداری پڑھا کرتے تھے۔ اس مصرع کا مطلب یہ ہے کہ مندر کے پجاری بیدار ہو گئے۔
ہُوئی بامِ حرم پر آ کے یوں گویا مؤذّن سے
نہیں کھٹکا ترے دل میں نمودِ مہرِ تاباں کا؟
صبح ہر مسجد پر آکر ہر اذان دینے والے سے کہنے لگی کہ کیا تیرے دِل میں روشن سورج کے طلوع ہونے کا کوئی کھٹکا نہیں ہے؟ صبح کی اذان سورج طلوع ہونے سے پہلے یعنی صبح صادق کے وقت، جب روشنی پھیلنے لگتی ہے، دی جاتی ہے۔۔ یعنی اے مؤذن اُٹھ اور فوراً اذان دے
کھٹکا: یہاں اس لفظ سے خوف یا ڈر مراد نہیں، بلکہ تصوّر یا خیال جو عموماً موذن کے دِل میں ہوتا ہے کہ مجھے طلوعِ آفتاب سے پہلے اُٹھ کر اذان دینی ہے۔
پُکاری اس طرح دیوارِ گلشن پر کھڑے ہو کر
چٹک او غنچہ گُل! تُو مؤذّن ہے گُلستاں کا
وہ باغ کی دیوار پر کھڑی ہو کر پھول کی کلی کو یوں پکاری کہ او کلی! تُو کھِل جا، کیونکہ تُو باغ کی مؤذن ہے اور تیرا چٹکنے کی آواز گلشن کے لیے آوازِ اذاں ہے۔ صبح ہونے پر کلیاں کھِلنے لگتی ہیں اور پھول بن جاتی ہیں۔
پھول کا یہ کھِلنا گویا اس بات کی دلیل ہے کہ صبح طلوع ہو گئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح اذان سے صبح کے طلوع کا پتا چل جاتا ہے۔
دیا یہ حکم صحرا میں چلو اے قافلے والو!
چمکنے کو ہے جُگنو بن کے ہر ذرّہ بیاباں کا
پھر وہ صحرا کی طرف گئی اور یہاں پر اہلِ قافلہ کو یہ پیغام دیا کہ وہ ابھی سے اپنے سفر کا آغاز کر دیں اس لیے کہ تھوڑی ہی دیر میں گرمی کے باعث صحرا کا ایک ایک ذرہ جگنو بن کر چمکنے والا ہے یعنی گرمی اس قدر ہو جائے گی کہ پھر قافلے والوں کے لیے سفر ممکن نہ ہوگا۔
سوئے گورِ غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے
تو یوں بولی نظارا دیکھ کر شہرِ خموشاں کا
صبح جب زندوں کی بستی سے قبرستان کی طرف گئی تو شہرِ خموشاں کا نظارہ دیکھ کر بولی۔۔۔
ابھی آرام سے لیٹے رہو، مَیں پھر بھی آؤں گی
سُلادوں گی جہاں کو، خواب سے تم کو جگاؤں گی
اے شہرِ خموشاں کے رہنے والو! تم ابھی آرام سے سوئے رہو، میں پھر بھی آؤں گی۔
اُس وقت دُنیا کو سُلادُوں گی اور تمہیں نیند سے جگادُوں گی۔ روزِ حشر کی طرف اشارہ ہے، جب قیامت کی صبح بیدا ہوگی تو مُردوں کو زندہ کر کے قبروں سے اُٹھایا جائے گا اور دنیا فنا ہو جائے گی۔