”فردوس میں ایک مُکالمہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
اس بغایت مؤثر نظم ”فردوس میں ایک مکالمہ“ میں علامہ اقبال نے کمالِ خوبی کے ساتھ شیخ سعدیؒ کے مشہور شعر پر تضمین کی ہے۔ اُنھوں نے اپنے جذباتِ ملی کے اظہار کے لیے جن دو بزرگوں کو منتخب کیا ہے، یہ دونوں ہماری مِلّی تاریخ میں اس اعتبار سے بہت بلند مقام رکھتے ہیں۔ وہ کون سا تعلیم یافتہ مسلمان ہے جس نے حالیؔ کی مسدّس اور سعدیؔ کی گلستان نہیں پڑھی؟
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نوٹ: تضمین کے لغوی معنی ہیں شامل کرنا، ملانا، جگہ دینا۔ اصطلاحِ شعراء میں کسی مشہور مضمون یا شعر کو اپنے شعر میں داخل کرنا، چسپاں کرنا، شعر پر مصرع لگانا۔ شاعر جب کسی دوسرے شاعر کے کلام، شعر یا کسی مصرعے سے متاثر ہوتا ہے تو اس پر کچھ اضافہ کرکے اپنا لیتا ہے۔ شعری تخلیق کا یہ عمل تضمین کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
(حوالہ: نعمتِ کائنات)
نظم ”فردوس میں ایک مکالمہ“ کی تشریح
ہاتِف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
حالیؔ سے مخاطب ہوئے یوں سعدیِؔ شیراز
ہاتف نے مجھے خبر دی کہ ایک روز جنت میں سعدیؔ شیرازی، مولانا الطاف حسین حالیؔ سے یوں مخاطب ہوئے:-
اے آنکہ ز نورِ گُہرِ نظمِ فلک تاب
دامن بہ چراغِ مہ و اخترزدہ ای باز!
سعدیؔ (حالیؔ سے): اے کہ وہ شاعر! کہ تُو نے اپنی آسمان کو چمکا دینے والی نظموں (شاعری) کے موتیوں سے چاند تاروں کے چراغ گُل کر دیے ہیں / بُجھا دیے ہیں۔
کچھ کیفیتِ مسلمِ ہندی تو بیاں کر
واماندۂ منزل ہے کہ مصروفِ تگ و تاز
ذرا مجھے ہندی مسلمانوں کی حالت و کیفیت تو بتا، کہ اُن پر تیری نظموں کا کیا اثر مرتب ہوا؟ آیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں یا اپنی ترقی کے لیے کچھ کوشش کر رہے ہیں؟
مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمیِ آواز
جس قوم کے نعرۂ تکبیر سے کسی زمانہ میں بحر و بر میں لرزہ پڑ جاتا تھا، اب اُس قوم کے مذہبی جوش کا کیا عالم ہے؟
باتوں سے ہُوا شیخ کی حالیؔ متاَثّر
رو رو کے لگا کہنے کہ ”اے صاحبِ اعجاز
سعدیؔ کا سوال سُن کر حالی پر رِقّت طاری ہوگئی، اور وہ رو رو کر سعدیؔ سے کہنے لگے:
اے صاحبِ اعجاز!
صاحبِ اعجاز: اقبالؔ نے سعدیؔ کو ”صاحبِ اعجاز“ اس لیے کہا کہ اُن کی ”گلستان“ بلاشبہ فارسی میں لاجواب کتاب ہے۔
جب پیرِ فلک نے وَرق ایّام کا اُلٹا
آئی یہ صدا، پاؤ گے تعلیم سے اعزاز
حالیؔ (سعدیؔ سے): جب بوڑھے آسمان نے زمانے کی کتاب کا ورق اُلٹا اور مادی قوتیں برسرِ اقتدار آگئیں یعنی جب انگریزوں نے ہندوستان فتح کر لیا تو اُنھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ اگر تُم عزت اور رُتبہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اسلامی علوم ترک کر کے انگریزی تعلیم حاصل کرو۔
آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی، طائرِ دیں کر گیا پرواز
مسلمانوں نے اس مشورے پر عمل کیا۔ یورپی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں میں ”ڈپٹی کلکٹر“ تو پیدا ہونے لگے ہیں لیکن عقیدوں میں ضعف (ناپُختگی) نمودار ہوگیا۔۔ اُنہیں دنیاوی و مادی فائدے تو بہت پہنچے ہیں لیکن دین سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
دِیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز
جس چیز سے مسلمانوں کے ارادوں میں بلندی پیدا ہو سکتی تھی، وہ تو دین ہی تھا۔ چونکہ دین رخصت ہو گیا ہے، اس لیے اب قوم کے نوجوانوں کی فطرت بالکل پست ہو گئی ہے۔
مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دِیں زخمہ ہے، جمعیّتِ مِلّت ہے اگر ساز
قوم کے اندر، مذہب ہی سے ہم آہنگی اور اتحاد پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر دین سلامت نہ رہے تو مِلت کا وجود بھی برقرار نہیں رہ سکتا۔ اگر مِلّت کی جمعیت کو ساز سے تشبیہ دی جائے تو دین اُس ساز کے لیے زخمہ (وہ آلہ جس سے ساز بجایا جاتا ہے) کا کام کرتا ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح زخمہ کے بغیر ساز میں سے سُر پیدا نہیں ہو سکتا، بلکل اُسی طرح دین کے بغیر قوم میں اتحاد باقی نہیں رہ سکتا۔
بنیاد لرَز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجامِ گُلستاں کا ہے آغاز
اگر چمن کی دیوار ہِل جائے تو ظاہر ہے کہ باغ کی ویرانی کا آغاز ہوگیا ہے۔ دیوار مسلم نوجوانوں کا اور گلستان ملتِ اسلامیہ کا استعارہ ہے۔ جب ملت کے نوجوان مذہب سے بیگانہ ہو جائیں گے تو ظاہر ہے، مِلت کو وجود جلد ختم ہوجائے گا۔
پانی نہ مِلا زمزمِ ملّت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پَود میں الحاد کے انداز
چونکہ نئی مسلم نسل کو زم زم سے پانی نہیں مِلا (انہیں دینِ اسلام سے کوئی رغبت نہیں رہی) اس لیے اس میں کفر و الحاد کے انداز پیدا ہوگئے ہیں۔
یہ ذکر حضورِ شہِ یثرِبؐ میں نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غمّاز
شیخ صاحب! حقیقت آپ کے رو برو رکھ دی ہے۔ لیکن خدا کے لیے آپ (سعدیؔ) حضورِ اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس بات کا تذکرہ نہ کیجیے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہند کے مسلمان مجھے چغل خور (غمّاز) سمجھ لیں۔
”خُرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم“
آخر میں آپ (سعدیؔ) ہی کے شعر کے حوالے سے کہتا ہوں:-
ترجمہ: جو کانٹے ہم نے بوئے ہیں اُن سے کھجوریں کیسے حاصل ہو سکتی ہیں؟ اور جو اون ہم نے تیار کی ہے اُس سے مخمل کا تھان کیسے تیار ہوسکتا ہے؟
یعنی جب ہم کافروں کا مقرر کردی نصابِ تعلیم پڑھ رہے ہیں تو ہمارے اندر مسلمانوں کا رنگ (اسلام کا جذبہ) کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟